Tuesday

حصہ دوم : پشتون – حال اور مستقبل

پشتون عہدِحاضر میں

دریائے اوکسس اور دریائے سندھ کے درمیان آباد پشتون قوم تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر کھڑی ہے۔گزشتہ تین دہائیوں  سے جاری جنگ نے افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اورتیس لاکھ سے زاید افغان اب بھی پاکستان اور ایران میں  مہاجروں  کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔افغانستان کی جیو سٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظرامریکہ کے زیرِ کمان مغربی طاقتیں  وسطِ ایشیا اور جنوبی ایشیائ میں  اپنے مفادات کے تخفظ کے خاطر وہاں  موجود ہیں ۔پاکستان میں  رہنے والے پشتون حکمران طبقہ کے ہاتھوں  حد درجے کی استحصال کا شکارہیں ۔پاکستان میں  شروع ہی سے ایسی استحصالی پالیسیاں  بنائی گئی ہیں  جن کی وجہ سے برسرِ اقتدار طبقہ پشتونوں  کے پانی اور معدنی ذخائر کی دولت کو دونوں  ہاتھو ں  سے لوٹ رہا ہے۔پشتونوں  کو اپنے افغان بھائیوں  کے خلاف مذہب کے نام پر لڑایا گیا۔ان پر مسلسل دباو ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں  موجود حکومتوں  کے ساتھ بلاجواز وفاداری کا ثبوت دیں  جو کہ اخلاقی طور پر سراسر غلط ہے۔ گزشتہ ساٹھ سالوں  سے پشتونوں  کے پانی اور معدنی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے جیبوں  کو بھر رہی ہے لیکن بے انصافی کی انتہا تو دیکھیے کہ باوجود اسکے کہ پشتونوں  نے پاکستان کے لئے بیش بہا قربانیاں  دیں ، ان کو دنیا کے سامنے مذہبی انتہا پسند اور ایک پسماندہ قوم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کے سرکردہ لوگوں  نے ان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔اسی اسٹیبلشمنٹ نے پشتونوں  کو جغرافیائی طور پر تقسیم کئے رکھا، ان کو معاشی لحاظ سے غریب رہنے دیا اور سیاسی لحاظ سے ان کو قومی محرومی میں  مبتلا کئے رکھاہے۔  پشتون قوم جغرافیائی طور پر دو اکائیوں  میں  منقسم ہے یعنی پاکستان اور افغانستان۔افغانستان میں بسنے والے پشتونوں  کے دو دھڑے ہیں ۔ مذہبی طور پر سرگرم طالبان جن کو خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔یہ طالبان ان بین الاقوامی افواج جو کہ افغانستان کی حفاظت اور وہاں  کی حکومت کی امداد کے لئے وہاں  موجود ہیں ، کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ جما کر اپنے وضع کردہ اسلام کو لاگو کریں  ۔طالبان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں ۔ دوسرے وہ پشتون جو کہ افغانستان کے سیاسی عدم استحکام اور طالبان اور بیرونی افواج کے درمیان لڑائی کی وجہ سے اپنے مستقبل کے بارے میں  فکر مند ہیں ۔ ان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ پشتونوں  اور غیر پشتونوں  کے درمیان اختلافات کہیں  نسلی تغصبات کی ایک بہت بڑی خلیج میں  تبدیل نہ ہو جائے۔ دوسری طرف پاکستان کے پشتون پانچ جغرافیائی اکائیوں  میں  بٹے ہوئے ہیں  جن میں  شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان، فاٹا، پنجاب (اٹک اور میانوالی) اور کراچی شامل ہیں ۔پاکستان کے پشتون نہ صرف منقسم ہیں  بلکہ پاکستان کے اندر طاقتور پنجابی اور مہاجر لابی کی وجہ سے اپنے مستقبل کے بارے میں  غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں ۔پاکستانی ادارے ، حتٰی کہ آئینِ پاکستان بھی پشتونو ں  کے خلاف تغصبات کی مثالیں  ہیں ۔  موجودہ سیاسی اور جغرافیائی نقشے میں  چونکہ پشتونوں  کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے اس لئے ان کے پاس اپنے وجود اور بقا کی ضمانت کے دو راستے ہیں۔ اول موجودہ  اکائیوں  میں  رہتے ہوئے اپنے ترقی کے لئے ارتقائی لائحہ عمل کا ایک عارضی بندوست کرنا۔ارتقائی لاحہ عمل اپناتے ہوئے پشتونوں  کو انہی جغرافیائی اکائیوں  میں  رہ اپنے لئے ترقی کے راستے نکالنے ہوں  گے جن میں  اب تک وہ رہتے چلے آرہے ہیں یعنی پاکستان کے پشتون پاکستان کے اندر رہ کر اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں  گے جبکہ افغانستان کے پشتون افغانستان کے اندر رہ کر۔ دوم اپنے طویل مدتی خوشحالی کے لئے ایک انقلابی طرزِ عمل اختیار کرنا۔انقلابی طرز عمل کا مطلب یہ ہے کہ پشتون اپنی حق خود ارادیت کے لئے آواز بلند کریں  اور یا تو پشتونولی کو بنیاد بنا کر اپنے لئے ایک الگ قومی ریاست تشکیل دیں  اور یا معاہدہ ڈیورنڈ لائن کو منسوخ سمجھ کر افغانستان کے ساتھ شامل ہو جائیں ۔  ارتقائی لاحہ عمل کی رو سے ڈیورنڈ لائن کے دونوں  اطراف پشتونوں  کو درج ذیل اہداف حاصل کرنے ھیں - چونکہ پشتون افغانستان میں  اکثریت میں  ہیں  اس لئے ان کو چاہئے کہ افغانستان میں  عددی اکثریت کی بنیاد پر جمہوری انداز میں  حکومت کرنے کا حق حاصل کریں، اس کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقائی اور لسانی اقلیتوں  کو بھی ان کے جائز حقوق دیں، شمال مغربی سرحدی صوبہ، صوبہ بلوچستان،فاٹا اور پنجاب (اٹک اور میانوالی) کو ملا کر ایک متحدہ پشتون صوبے کا قیام، جس کا نام پشتونستان یا NWFP  ہو۔پاکستان کے اندررہ کر مکمل صوبائی خودمختاری اور قدرتی وسائل جیسے پانی، گیس اور قیمتی پتھروں  وغیرہ پر اپنے جائز حق کا مطالبہ کرنا، سوائے چند وزارتیں  جو مرکزی حکومت کے پاس رہیں  گی باقی تمام اختیارات صوبوں  کو دلوانا اور وفاقی اداروں  میں  تمام صوبوں  کو متناسب نمائیندگی دینے کا مطالبہ کرنا، ھنگامی بنیادوں  پر پشتونوں  کے پسماندہ علاقوں کی تعلیم اور ترقی کے لئے مرکز سے زیادہ بجٹ کا مطالبہ کرنا، گزشتہ تین دہائیوں  سے بیرونی دنیا کی طرف سے اسلام آباد کو پشتون علاقوں  کے ترقی لئے ڈھیر ساری امداد مل رہی ہے لیکن وہ پشتونوں  کی ترقی اور آباد کار ی کی بجائے ان کو مارنے پر خرچ ہور ہی ہے۔ 


پشتون وطن میں جنگ کے محرکات 

پشتون وطن میں  جنگ کے درج ذیل تین اہم محرکات ہیں  جس کی وجہ سے پشتون اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔
 القائدہ فیکٹر
القائدہ مذہب کے لبادے میں  عرب تحریک ہے۔اِس کا مقصد اسلام سے زیادہ عرب کلچر کا فروغ ہے۔القائدہ کا مقصد عرب اجارہ داری کا قیام ہے اور وہ اِس لئے اسلام کو استعمال کررہی ہے۔اِس عرب قوم پرست نظریئے کی جانب پوری دنیا کے مسلمانوں  کو آخرت کے نام پر   دھوکہ دے کراپنی طرف راغب کرتی ہے۔طالبان القائدہ کا ایک مقامی گروہ ہے۔طالبان اور پاکستان کے مقاصد ایک ہی ہیں  یعنی افغانستان اور بھارت کو غیر مستحکم کرنا۔یہی وجہ ہے کہ خفیہ ادارے اور فوج طالبان کی مدد کرتی رہی ھیں ۔وہ طالبان کو پشتون قوم پرستی اور افغانستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتی ہیں  مگر جب یہ القائدہ پنجاب کے مفاد کے خلاف کام کرتی ہے تو پھر فوج اور خفیہ ادارے اِن کو Neutralize کردیتی ھیں۔پشتون نے ہمیشہ اِن دہشت گردوں  اور ان کے غیر انسان روئےے کی مذمت کی ہے۔
 
امریکی فیکٹر
امریکا کو چین سے ایک واضح خطرہ ہے اسلئے امریکا کا مفاد یہ ہے کہ چین کے خلاف ہند کومضبوط کرے اورپاکستان کو غیر مستحکم اور ممکنہ طور پر توڑ دے کیونکہ یہ ریاست USSR کے خلاف اپنا کام کرچکی ہے۔امریکا کا مفاد یہ بھی ہے کہ پاکستان میں  قومی اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے پاک فوج کے ذریعے اقتدار پر بلاواسطہ قبضہ کرے۔امریکا نے تین عشروں  تک پشتون وطن میں  خفیہ اداروں،  CIA ،  القائدہ،   اور طالبان کو استعمال کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پشتون وطن میں  تقریباًہر جنونی انتہا پسند ملا کے پیچھے خفیہ اداروں  یا القائدہ کا ہاتھ ہے۔القائدہ کے جنونی پاکستان میں  جنرل ضیا،  جنرل اختر رحمان اور بریگیڈئیر یوسف اور امریکا میں  ولیم کیسی کے ہیرو رہے ہیں ۔مارک ایڈکن نے "The Bear trap" میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے لیکن پشتون پاکستانی میڈیا کے پروپیگنڈا کے باوجود امریکا کو اپنا حقیقی دشمن نہیں  سمجھتے۔



پاکستانی فیکٹر 

قوم پرستی کبھی بھی سامراجی قوتوں  کو نہیں  بھاتی چاہے وہ برطانیہ ہو،  امریکا یا پاکستان فوج۔  سندھ میں  MQM اور PPP مضبوط یں  اور پنجاب میں  مسلم لیگ۔ جبکہ NWFP  میں      ANP, PPP, PKMAP, PML, JI, JUI وغیرہ میں  ووٹ تقسیم ہوتے ہیں ۔پشتون ایک ثقافت اور زبان  رکھنے کے باوجود مرکزی،  شمالی اور جنوبی NWFP  میں تقسیم ہیں  اور اختلافات کا شکار ہیں ۔پنجاب نے ہمیشہ اپنے مفاد کےلئے پشتونوں  اور اُن کے وسائل کو استعمال کیا ہے۔پشتونوں  نے کبھی بھی اپ نے وسائل اپنے اصل قومی مقاصد کےلئے استعمال نہیں  کئے۔پشاور میں  غیر پشتون کا قتل میڈیا میں ہنگاما کھڑا کردیتا ہے مگر پشتونوں  کے بے دریغ قتل پر قوم پرست جماعتوں  کے علاوہ سب خاموش رہتے  ہیں ۔ پشتونوں  میں  اپنے استحصال کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ اور نفرت کسی بھی وقت طوفان کا رخ اختیارکرسکتا ہے۔ اگر نواز شریف پنجاب کے مفاد کی خاطر لانگ مارچ کرسکتا ہے تو پشتون قیادت پشتون مفادات کیلئے آواز کیوں  بلند نہیں  کرسکتی۔ANP اور  PKMAP کیوں  پشتونوں  کے حقوق اور سوات میں   امن کی خاطرلانگ مارچ نہیں  کرسکتے۔شمالی اور مرکزی NWFP  کے مسائل مقامی مسائل نہیں ۔  پشتون اپنے قومی اور ملی مفاد سے بے خبر ہیں ۔تمام علاقوں  کے پشتونوں  کو اپنے مفادات اور مستقبل کےلئے یکجا ہونا چاھیے۔

پشتونوں  کی سیاسی آزادی 

پشتونو ں کو سب سے پہلے یہ شعور حاصل کرنا ہوگاکہ انہیںاجتماعی طور سب سے پہلے کیا کرنا ھے۔بحیثیتِ مجموعی پشتون قوم کا فوری نصب العین اقتصادی اور سیاسی آزادی ہے۔لیکن پاکستان اور افغانستان میں  استحصالی قوتوں  (خواہ وہ سامنے ہوں  یا پس پردہ) سے چھٹکارا پانے کے لئےFirst deserve then desire کے اصول پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہی قوم آزادی کی خواہش رکھ سکتی ہے جو اس کی حقدار ہو۔یعنی آزادی حاصل کرنے کے لئے پہلے اپنے آپ کا اس قابل بنانا ہوگاکہ آزادی حاصل کی جائے۔پشتون قوم کو نہ صرف اپنی قدروقیمت کا اندازہ لگانا ہوگا بلکہ یہ ثابت بھی کرانا ہوگا کہ وہ اس قابل ہیں  کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرسکیں اور اپنے اوپر مسلط ہر قسم کے جبر کو ختم کرسکیں ۔کوئی بھی قوم جوسیاسی اور معاشی آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے اسے بہت سارے شرائط پر پہلے ہی سے پورا اترنا ہوگا۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ ایک مشترکہ نصب العین پر پہلے سے اتفاقِ رائے موجود ہو۔ایک مشترکہ نصب العین کسی قوم کو متحد رکھتی ہے اور ان کی عقلی اور جذباتی توانائیوں  کو ایک نقطے پر مرکوز رکھتی ہے۔اگر ہم پشتونوں  کی مثال لیں  تو ان کا مشترکہ نصب العین آزادی ہے۔یہ آزادی مختلف قسم کی آزادیوں  کا مجموعہ ہے جیسے زندہ رہنے کی آزادی،علم حاصل کرنے کی آزادی،حلال رزق کمانے کی آزادی اور ایک باعزت زندگی گزارنے کی آزادی وغیرہ۔آزادی کی حصول کی طرف پہلا قدم وہ سنجیدہ رویّہ ہے جسے علم سیاسیات میں  unity in diversity  کہا جاتا ہے۔ اسکا مطلب ایک ایسی اجتماعی سوچ ہے جو کسی گروہ کے اندر انفرادی اختلافات اور میلانات کو ساتھ لے کے چلتاہے اور اجتماعی معاملات میں  یکجہتی کا قائل ہے۔سائنسی تکثیریت scientific pluralism  کا اصول ہمیں  یہ بتاتا ہے کہ زندگی میں  رنگینی تنوع variety کی بدولت ہے اور باوجود اس کے کہ افراد کے خیالات اور میلانات میں  تفاوت موجود ہو، ایک قوم پھر بھی مشترکہ طور پر اپنے نصب العین کے حصول کے قابل ہو سکتی ہے۔ایک قوم کے لئے اجتماعی سوچ اس لئے بھی ضروری ہے کیوں  کہ اجتماعی کاوشیں  اس قوم کے افراد کے انفرادی قربانیوں  سے وجود میں  آتی ہیں ۔پاکستان میں  پشتونوں  کا اجتماعی مفاد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے معاشی چنگل سے خلاصی ہے جبکہ افغانستان میں  پشتونوں  کا اجتماعی مفاد مغربی طاقتوں  کی چوھدراہٹ سے نجات ہے۔ سیاسی اور معاشی آزادی کی حصول کی دوسری شرط سائنسی بنیادوں  پر استوار قوم پرستی کا نظریہ ہے۔قوم پرستی کی دو قسمیں  ہیں  یعنی تاریخی Historic  اور سائنسی۔ قوم پرستی کی پہلی قسم ہیرو ورشپ Hero Worship ، شخصیت پرستی،جنون کی حد تک ماضی پرستی، تغصّبات اور قبائلی قاعدوں  پر مشتمل ہے۔قوم پرستی کی اس شکل کو ہمیشہ استعماری طاقتوں  نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے۔تاریخ سے ہمیں  سبق ملتا ہے کہ کس طرح قوم پرستی کی اس تین درجاتی اصطلاحthree-tier nomenclature   یعنی: (ا)لیڈرشپ leadership   (ب) کارکنانcadres  اور (ج)عوامی دباوpublic pressure  کو استعماری طاقتوں  نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔استعماری طاقتیں  یا تو حکمرانوں  کی وفاداریاں  خرید لیتے ہیں  اور یا ان کو قتل کر دیتے ہیں ۔وہ کارکنان کو رشوت اور ترغیبات دیتے ہیں  تاکہ ان کا hierarchy ڈھانچہ اور انتظامی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔اس طرح عوامی دباو public pressure  کی شدت میں  کمی لانے کے لئے استعماری قوتیں فرقہ پرستی جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں  جیسا کہ ہمیں  آج کل خیبر ایجنسی میں  دو متحارب مذہبی گرہوں  کے درمیان چپقلش کی صورت میں  نظر آرہا ہے۔پس اس طرح کی قوم پرستی کی وجہ سے قوم غلامی کی زنجیروں  میں  جکڑی رہتی ہے اور قوم کے وسائل کواستعماری طاقتیں  دونوں  ہاتھوں  سے لوٹتی ہیں ۔ قوم پرستی کی دوسری قسم یعنی سائنسی نیشنلزم Scientific Nationalism  شخصیت پرستی کی بجائے سائنس ، ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی اور آزادی کے زریں  اصولوں  پر مبنی ہے۔ یہ قوم پرستی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔تاریخی Historic  نیشنلزم موجودہ حالتstatus quo  کا دوسرا نام ہے جبکہ سائنسی نیشنلزم  موجودہ حالتstatus quo کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے کیوں  کہ یہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کو لانے کے لئے تخلیقی اور اختراعیinnovative   صلاحیّتوں  پر یقین رکھتا ہے۔ آزادی کے حصول کی تیسری شرط درست اِن پٹinput   یا کوشش ہے۔مختلف فلسفہ ہائے تاریخ جو کہ ابن خلدون، آرنلڈ ٹوین بیArnold Toynbee  اور کارل مارکس نے دریافت کئے ہیں ،اصل میں  فطرت کے وہ اعلیٰ قوانین ہیں جو انسان کے انفرادی اور اجتماعی روّیوں کی تشریح کرتے ہیں ۔اس ضمن میں  اِن پٹ ،آوٹ پٹ کا قانوں  Input and Output Law قابل ذکر ہے۔یہ قانون ہمیں  بتاتا ہے کہ "اِن پٹ کے بغیر آوٹ پٹ ممکن نہیں "۔آزادی انسانی کاوشوں  کی آوٹ پٹ ہے۔وہ  اقوام جو آزادی کی متلاشی ہیں  انہیں ان  اِن پٹس inputs  کا کھوج لگانا ہوگا جو ان کی مرضی کے آوٹ پٹس outputs   دیں ۔اس قانون کی پہلی املاFirst deserve then desire ہے یعنی پہلے اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل بنانا اور پھر اس چیز کی تمنّا کرنا۔سادہ لفظوں  میں  اسکی دو معانی ہیں ۔(ا)لیڈرشپ میں  یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ وہ عوام کے توقعات پر پورا اترے اور (ب)عوام میں  جدوجہد کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ لیڈرشپ صرف اس صورت میں  عوامی توقعا ت پر پورا اتر سکتی ہے جب اس کے قول و فعل میں  تضاد نہ ہواور اسکا وژن vision  سائنسی ہویعنی وژن فطرت کے ان قوانین سے قریب تر ہو جن کی وضاحت سائنس اور ٹیکنالوجی کرتے ہیں ۔یقینا ایک سائنٹیفک وژن ہی کسی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے۔اِن پٹ، آوٹ پٹ کا قانون ہمیں  بتاتا ہے کہ اس سے پہلے کہ ترقی کے حصول کے مرحلے تک پہنچا جائے ، ایک قوم کومختلف سماجی اور نفسیاتی ارتقائی ادوار سے گزرنا پڑتا ہے۔فطرت کے قوانین قوموں  کے راستے میں  حیاتیاتی، نفسیاتی،ماحولیاتی،جغرافیائی، سماجی اور سیاسی چیلنجز پیش کرتے ہیں  اور اس طرح قوموں  کی تربیت کرتے ہیں  تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں ۔ان چیلنجز یا رکاوٹوں  سے اسی صورت میں نمٹا جا سکتا ہے جب سائنسی طرز ِفکر کو اپنا جایا اور ٹیکنالوجی تخلیق کی جائے۔اگر کوئی قوم ان چیلنجز سے صحیح طور پر نبرد آزما ہو سکے او ر راستے کی تکالیف اور مصائب برداشت کرلے تو آزادی کا حصول اس کا مقدر بن جاتا ہے۔تاریخ میں  ایسا کبھی نہیں  ہوا کہ ایک ایسی قوم جو ترقی کی حقدار نہ ہو، اسے ترقی ملی ہو۔پس ایک قوم کو آزادی حاصل کرنے کے لئے پہلے خود کو اس قابل بنانا ہوگا۔اگر پشتون قوم آزادی کی ان شرائط پر پورا اترنے کی کوشش کرے تو کوئی بعید نہیں  کہ وہ ہر قسم کی استعماری اور استحصالی قوتوں  سے آزادی حاصل کر لے گا۔ 
 
 (The Frontier Post: 02-07-2007)
 
پشتونوں کی بقااور قومی وحدت

پشتونوں  کی سرزمین جغرافیائی لحاظ سے جنوبی ایشیائ کی داخلی گزرگاہ ہے اور سکندراعظم سے لیکر بابر تک تما م استعماری اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے قوتیں  یہاں  سے ہو کر گزرے ہیں  جس کی وجہ سے پشتون ہمیشہ عدم استحکام اور تباہی کا شکار رہے ہیں ۔باوجود اس کے کہ پشتونوں  کے پاس ایک منطم دفاعی نظام اور عسکری ٹیکنالوجی نہ تھی پھر بھی انہوں  نے تمام حملہ آوروں  کے خلاف مزاحمت کی ہے اور تب تک ان کے ساتھ لڑے ہیں  جب تک ان کو پشتونوں  کی سرزمین سے باہر نہیں  نکالا گیا ہو۔پشتونوں  کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں  نے کبھی کسی قوم یا ریاست پر حملہ نہیں  کیا لیکن استعماری قوتوں  نے پشتونوں  کو کبھی چین سے نہیں  رہنے دیا اور ان کو یہ موقع نہیں  دیا کہ وہ اپنی سرزمین کی استحکام اور ترقی لے لئے کام کریں ۔پشتونوں  نے اپنے دفاعی اور عدم مداخلت کی پالیسی کی وجہ سے بہت زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں ۔ لیکن 1747میں  احمد شاہ بابا نے پشتونوں  کے روایتی دفاعی پالیسی کے بجائے ایک جارحانہ دفاعی پالیس اپنائی اور پہلے افغان جمھوریہ کی بنیاد رکھی جس کی سرحدیں وسط ایشیا سے لے کے جنوبی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں ۔احمد شاہ بابا کے قائم کئے گئے افغان سلطنت کے پیچھے یہ راز پنہاں تھا کہ انہوں  نے منتشر افغانوں  کو سیاسی بصیرت vision   اور قومی نصب العین دیا۔اس نصب العین کی جدوجہد کی بدولت افغان قبائل ایک پلیٹ فارم تلے جمع ہوئے۔ یہ تاریخی کامیابی ہمیں  یہ بتاتی ہے کہ پشتونوں  کی اتحاد کے پیچھے ایک نصب العین تھااور بغیر کسی مقصد کے قوم یکجا نہیں  ہو سکتی۔ قومی نصب العین قوم کو متحد رکھتی ہے۔ لہٰذا پشتون لیڈرشپ اگر پشتونوں  کو متحد دیکھنا چاہتی ہے تو اانہیں  چاہئے کہ وہ اپنے قوم کے سامنے ایک واضح نصب العین رکھیں ۔یہاں  پر ہم پاکستان کے اندر پشتون مخالف قوتوں  کی حکمت عملی کا تجزیہ کرتے ہیں  اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں  کہ کس طرح ان کے طاقت کو توڑ کر ان سے اپنی قوم کو بچایا جا سکے۔ NWFP  کے جغرافیہ کو اسی حالت میں  رہنے دیا گیا ہے جس حالت میں  انگریزوں  نے اس کی انتظامی تقسیم کی تھی۔NWFP  کو پہلے افغانستان سے جدا کیا گیا اور پھر اسکے مزید ٹکڑے کئے گئے جیسے شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان، فاٹااور اٹک،میانوالی اور ڈیرہ غازی خان کے پشتون علاقے۔ایک ایسا آئین لاگو کیا گیا جو کہ پنجابی مفادات کو تحفظ دیتا ہے اور فوج کے مفادات کے مطابق ہے۔ایک عوامی جمہوری حکومت کے قیام میں  روڑے اٹکائے گئے ۔ جب بھی منتخب سیاسی حکومت نے پنجاب کے مفادات کے خلاف آئین سازی کی کوشش کی ہے پاکستانی فوج اور اس کے جاسوسی اداروں  نے ہمشہ مداخلت کی ۔جب بھی منتخب عوامی حکومت نے عوامی مفادات کے پیش نظر آزادانہ فیصلے کئے ہیں  تو فوج نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا۔مسلسل اس بات کی تشہیر کی گئی کہ پنجاب اور فوج کے مفادات پاکستان کے قومی مفادات ہیں۔پشتون علاقوں  میں  دانستہ طور پر امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ سرمایہ کاری اور ترقیاتی کاموں  کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔باصلاحیت پشتونوں  کو بیرونی ملک روزگار کی تلاش پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں  پشتون علاقے بری طرح برین ڈرینBrain Drain   کا شکار ہیں ۔لاکھوں  کی تعداد میں افغانستان اور NWFP  کے ہنرمند پشتون کراچی، مشرق وسطٰی،مشرق بعید اور یورپ میں  کام کرنے پر مجبور ہیں ۔جبکہ کاروبار سے وابستہ پشتون ،NWFP  کے بجائے راولپنڈی،اسلام آباد، لاہور، فیصل آباداور کراچی میں  سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ھیں۔افغانستان کے اندر پشتون اور غیر پشتون افغانوں  کے درمیان اختلافات کے من گھڑت قصے گھڑے گئے اور معمولی واقعات کو ہوا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں  جانے دیا گیا۔اسی طرح آئی ایس آئی کے ایجنٹ طالبان کے صفوں  میں  گھس کر افغانستان میں  موجود امن فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔افغانستا ن کے اندر امن فوج اور پشتونوں  کے درمیان خلیج پیدا کرنے اور افغانستان اور NWFP  کے پشتونوں  کے درمیان نفرت کے بیج بونے کے لئے طالبان کو پشتونوں  کی نمائندہ تحریک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔NWFP  اور قبائلی علاقہ جات کو یرغمال بنانے کے لئے فوجی آپریشن کے نام پر طالبان کو مسلسل مدد فراہم کی گٰی- قبائلی علاقوں  میں  فوج طالبان کی مدد کرہی ہے تاکہ وہ افغانستان میں  موجود امن فوج کے ساتھ لڑائی جاری رکھے اور اسی طرح دنیا کو یہ غلط تاثر دیاجا رہا ہے کہ قبائلی علاقے طالبانائزیشن کی ذمہ دار ہیں ۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان کے لئے ایک منافقانہ خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے جسکی رو سے پاکستان افغانستان کی طرف دوستی اور اشتراک کا ہاتھ بڑھا رہاہے۔جبکہ فوجی آپریشن کے نام پر قبائلی علاقوں  کو پشتونوں  کےلیے نو گو ایریاno-go-areaمیں  تبدیل کیا گیا جس کی وجہ سے پشتونوں کے درمیان باہمی رابطہ منقطع ہو کر رہ گیا۔بظاہر یہ  دکھایا جارہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حد درجے کا تناو موجود ہے لیکن پس پردہ مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان تعلقات کے تمام دروازے کھلے ہیں ۔ طاقت کی مثال دولت  سے دی جا سکتی ہے ۔ طاقت کا نہ ہونا غربت کی علامت ہے۔ پیسہ ،پیسے کو کھینچتا ہے جبکہ غربت احساسِ محرومی کو بڑھاتی جاتی ہے یہاں  تک کہ غریب کی زندگی خطرے میں  پڑ جاتی ہے۔پشتون غریب ہیں ۔ ان کے وسائل اور روزگار کو ان سے چھینا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں ۔پشتونوں  کو مارا جارہا ہے اور ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بدلہ لیں  تاکہ ان کا قتل عام جاری رکھنے کا جواز موجود رہے۔کراچی میں  پشتونوں  کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے جبکہ فاٹا میں  پشتونوں  کا قتل عام ہو رہا ہے۔دوسری طرف پاکستان کے جاسوسی ادارے NWFP  اور بلوچستان کے مختلف علاقوں  میں  بم نصب کرکے لوگوں  کو دھماکوں  سے اڑا رہے ہیں ۔مقبوضہ NWFP  کے جنت نظیر علاقوں  کو دنیا کے سامنے یوں  پیش کیا جارہا ہے گویا وہ دہشت گردوں  کی جنت ہو۔ یوں  لگ رہا ہے کہ پاکستان کے اندر پشتونوں  اور دوسرے مظلوم قوموں  کے خلاف بربریّت ان کو اس بات پر مجبور کردیں  گے کہ وہ اپنی بقا اور آزادی کی تحریک شروع کریں ۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور پشتون  اپنی زندگی سے نفرت کرنا شروع کریں ، پشتونوں  کو پاکستان میں  اپنے علاقوں  کا سیاسی کنٹرول اپنے ہاتھوں  میں  لینا چاھیے اور ایجنسیوں  کے قبضے کو مکمل طور پر ختم کرانا چا ھیے ۔ایک ایسے ملک میں  جہاں  پشتونوں  کے وسائل کو بیچا جا رہا ہو اور جہاں  پشتونوں  کی سروں  کی قیمت لگائی جا رہی ہو ،وہاں  پر غلامی کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ پشتون اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے اپنے جانوں  کی قربانی پیش کریں ۔
  (The Frontier Post: 20-06-2007)
 
الیکٹرانک میڈیا اور پشتونوں کا قومی مفاد 
 
اکیسویں  صدی میڈیا کی صدی ہے ۔میڈیا کوریاست کے چوتھے ستون کا درجہ دیا جاتا ہے۔میڈیا نے عرب دُنیا اور ترقی پذیر دُنیا کی بہت سی آمرانہ حکومتوں  کی پالیسیاں  عوام اوراقوامِ عالم پر ظاہر کی ہیں ۔آج کے دور میں  فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے رہنوں  کو کنٹرول کرکے جنگ لڑی جاتی ہے۔اِس کے ساتھ ساتھ میڈیا مظلوم اور محکوم عوام کا شعور اجاگر کرنے کے علاوہ اُن عوامل کا بھی سراغ لگانے کا موقع دیتا ہے جو اِن کی محکومی اور غلامی کا سبب ہے- پاکستان میں  الیکٹرانک میڈیا اُس وقت عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا جب اِس نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور ایوانِ اقتدار کی اُن سازشوں  کا پول کھول دیا جو وہ عوام کے خلاف پس پردہ کرنے میں  مصروف تھے۔چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس،  کراچی میں  12 مئی کے واقعات اور MQM کی دہشت گردی کے خلاف میڈیا کا کردار قابلِ ستائش ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان میں  ریاستی دہشت گردی اور NWFP  میں  بد امنی کو بھی میڈیا نے عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا پشتون سیاست میں  کردار ایک اہم موضوع ہے کیونکہ ریاستی میڈیا نے پچھلی دہائیوں  میں  پشتونوں  کے حوالے سے نہایت منفی کردار ادا کیااور انہیں  ایک ملا نمائی اقلیت دکھا یاگیا ہے جو کہ ایک پانچ ہزار سالہ تاریخ رکھنے والی قوم کے ساتھ نا انصافی ہے۔پشتونوں  کی نمائندہ الیکٹرانک میڈیا تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے پشتونوں  کے اصل مسائل کی شناخت نہیں  ہوسکی وہ مسائل درج ذیل ہیں ۔ 1947 کے غیر قانونی ریفرنڈم میں پشتونوں کے لئے افغانستان میں ضم ہونے یا الگ ملک ہونے کی آپشن نہ ہونا، ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت جس نے پشتونوں کو اپنے مادرِ وطن سے جدا کیا ہواہے، پاکستان کے پشتونوں کا NWFP ، فاٹا اور بلوچستان میں تقسیم ہونا، پشتونوں کے سیاسی قائدین کو ریاست کی جانب سے غدار قرار دینا اور ان کے خلاف قدغنیں لگانا، پشتونوں کے مرکزی ایشیائ اور افغانستان کے ساتھ قدرتی نسبت کو مزموم کرنا اور بھارتی اور عرب کلچر کو فروغ دے کراُن کی ایک مصنوعی شناخت کو ابھارنا اوررائج کرنا، پشتون وطن کے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال اور پنجاب کا اِن وسائل پر قبضہ، پشتونوں کو مختلف ہتھ کنڈوں جیسے FCR اورمذہبی انتہا پسندی کے ذریعہ غلام اور محکوم رکھنا اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پشتون وطن میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور پھر اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرنے کی خاطر مذہبی اور جنونی گروہوں اور شخصیات کی کھلی امداد کرنا۔ پشتونوں  کی الیکٹرانک میڈیامیں  نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے اِن حقائق کو لوگوں  اور عوام کے سامنے لانے میں  دِقّت ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ پشتون مخالف پالیسیوں  پر آسانی سے عمل پیرا ہو۔میڈیا کا اصلی کردار یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی اِن کارستانیوں  کو بے نقاب کرے اور پشتون قومی مفادات کی حفاظت کرے۔اِس کی خاطر پشتونوں  کا میڈیا کے میدان میں  آنا بہت ضروری اور ناگزیر ہے۔ 

پہلا پشتون ٹی وی چینل اور پشتونوں  کی توقعات
 
پہلا پشتون ٹی وی چینل اپنی تیسری سالگرہ منا رہا ہے۔جب اے وی ٹی خیبر نے جولائی 2004میں  کام کرنا شروع کیا تو پشتونوں  نے اسے خوش آمدید کہا باوجود اس کے کہ بعض پشتون دانشوروں  کے اس پر تخفظات تھے کیونکہ ان کے خیال میں  اسٹیبلشمنٹ کا اصل مقصد اس چینل کے ذریعے پشتونوں  کے اقدار اور ان کے سماجی ڈھانچے کو بگاڑنا ہے اور پشتونوں  کو پاکستان کے اندر نام و نہاد آزادی کے بارے میں  قائل کرانا ہے۔دوسری طرف کچھ لوگ پر امید تھے کہ اب اس چینل کے ذریعے پشتونوں  کی حقوق کی بات ہوگی۔کئی دہائیوں  سے جاری جنگوں  اور بربادی کے بعد پشتونوں  نے اس چینل کو امید کی کرن سمجھا اور اس حد تک جوش و خروش کا اظہار کیا کہ اس چینل سے ان کے توقعات اور بھی بڑھ گئیں - پشتون حساس، باریک بین اور درجہ کمال تک پہنچنے والی فطرت کے حامل قوم ہے۔پشتون کسی کام کو شروع کرنے کی جرات کو تو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں  لیکن یس کا پیچھا یس وقت تک نھیں چھوڑتےجب تک اس کام کو perfect  نہ دیکھ لیں ۔اس تناظر میں خیبر چینل نے اپنی ابتدائی پالیسیوں  پر نظر ثانی کی اور کچھ انتظامی تبدلیاں  کیں  تاکہ اپنے حاضرین کے توقعات پر پورا اتر سکے۔تب سے لیکر اب تک یہ چینل اپنے معیار میں  بہتری لانے کی کوشش کررہا ہے لیکن ساتھ ساتھ اپنے شروع کے اس دعوے کو پش پشت ڈال دیا ہے کہ یہ پشتونوں  کا نمائیندہ چینل ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ خیبر چینل تجارتی، مالی اور سیاسی مجبوریوں  کے زیرِاثر ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ حساس سیاسی معاملات میں  پشتونوں  کو اپنا ہمنوابنانے کے لئے اس چینل کو ہدایات دے رہا ہے۔ عہد حاضر میں  میڈیا میں  مقابلے کا رحجان بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا خیبر ٹی وی کو خوش کے ناخن لینے چاہئیں  اور ایسی مقبول پالیسیاں  مرتب کرنی چاہئیں  تاکہ پوری دنیا کے پشتون خاضرین اس میں  دلچسپی لیں ۔اے وی ٹی خیبر اب واحد پشتو ٹی وی چینل نہیں  رہا۔افغانستان کے "شمشاد" اور "لمر"ٹی وی چینلوں  نے بھی کام شروع کردیا ہے۔ کوئی بھی ٹی وی چینل جو یہ دعویٰ کر رہا ہو کہ وہ پشتونوں  کا نمائندہ چینل ہے اس کی بہتری کی لئے مندرجہ ذیل تجاویز دی جاتی ہیں-
1۔ پشتون ثقافت اور پشتو زبان کو ترویج دینا اور ان کے بہتری کے لئے اقدامات کرنا۔
2۔ پشتون دانشور طبقے کو آگے لانا اور ان کے کام کو سراہنا۔
3۔ چینل اس حد تک آزاد اور خودمختار ہو کہ وہ افغانستان کی زیادہ سے زیادہ کوریج کر سکے۔
4۔پشتون سرزمین کو سیاحوں  کی جنت کے طور پر پیش کرنا اوردنیا کو بتانا کہ یہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشائ تک پہنچنے کا اہم راستہ ہے۔
5۔ چینل کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کرنا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو زیادہ اہمیت دینا۔
معیار میں  مزید بہتری لانے کے لئے یہ تجاویز موثر ہوسکتی ہیں - 

1۔ ناقدین چونکہ اے وی ٹی خیبر میں اردو زبان اورپشتو نہ بولنے واے افراد کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ کی وجہ سے نالاں  ہیں  اور اس بات کو پشتون ثقافت اور پشتو زبان کے خلاف سازش گردانتے ہیں  اس لئے پروگرام ایسے افراد کے ذریعے پیش کرنے چاہئیں  جو درست پشتو لہجے میں  بات کرسکتے ہوں ۔

2۔ موسیقی کے پروگراموں  کا معیار اگر چہ اچھا ہے پھر بھی ان میں  ایسی باتیں  ہوتی ہیں  جن کو پشتون اپنانے کےلیے تیار نہیں ۔مثال کے طور پر موسیقی کے پروگراموں  میں  ناچنا ایسی روایت ہے جس کو پشتون اپنے معاشرے پر ہندوستانی ثقافتی یلغار گردانتے ہیں یا جس کا مقصد پشتونوں  کو زبردستی ہندوستانی بناتا ہے۔پشتون فیملی چینل کے دعویداروں  کو ایسے منفی رحجانات سے اجتناب کرنا چاہئے۔

3۔ پشتون معاشرے میں  قبولیت کے عنصر کو ذہن میں  رکھ روایتی اور جدید موسیقی کوپیش کرنا چاہئے۔پشتون قدیم اور جدید کے درمیان توازن کو خوش آمدید کہیں  گے۔

4۔ پشتو کے تعلیمی پروگرام پیش کرنے چاہئیں ۔پاکستان کی Virtual University اورUAE کے اجالاٹی وی کی مثالیں  ہمارے سامنے ہیں ۔خواندگی اور تعلیم کو ترقی دینے کے لئے فاصلاتی نظامِ تعلیم کے پروگرام شروع کرنے چاہئیں ۔لارڈ میکاولے کے نوآبادیاتی دور کے تعلیمی نظام اور پاکستان کے بگڑے ہوئے تعلیمی نظام میں  خامیوں  کی نشاندہی کرنی چاہیے  اورسائنسی بنیادوں  پر تعلیمی نظام کی اصلاح کی کوششیں  کرنی چاہیے ۔پیشوں  کے انتخاب کی راہنمائی اور طلباکی مشاورت کے پروگرام پیش کرنے چاہیے جن میں  عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کاوشوں  کے ساتھ ساتھ نوکریوں  کے حصول کے مواقع پر بھی توجہ ہو۔

  5۔ پشتو پڑھانے کے لئے ایک الگ پروگرام ہونا چاہئے جس میں  پشتو شاعری اور نثر کے ساتھ ساتھ ان سے وابسطہ شخصیات کے بارے میں  بھی معلومات ہوں ۔ایسا کرنے سے مستقبل کے تاریخ دان اس بات پر مجبور ہو جائیں  گے کہ وہ پشتو ادب کی ترویج و ترقی کے لئے اس چینل کا شکریہ ادا کریں ۔

6۔ پشتو ڈرامے کو ایک نئے انداز میں  پیش کرنا چاہئے تاکہ اس ادبی صنف کو کام میں  لا کر پشتون ثقافت کی اصل تصویر کو اجاگر کیا جاسکے اور پشتون معاشرے میں  منفی رحجانات کی اصلاح کی جا سکے۔اسکے ساتھ ساتھ پشتون معاشرے میں  سیاسی بیداری کی تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں  کرنا چاہئے۔

7۔ عوامی مفاد کی خاطر اس چینل کی طرف سے معاشرے کے احتساب کی چھوٹی سی کوشش اداروں  کو کرپشن سے پاک کرنے اور ان کی اصلاح کے سلسلے میں مددگار ہو گی۔

8۔ فوری توجہ کے حامل معاملات یا ایسے موضوعات جن پھر اب تک کسی نہ کسی طرح پابندی ہو  ان کو ٹاک شوزtalk shows  کے ذریعے سامنے لایا جاے اور اپوزیشن کو بھی موقع دیا جائے تاکہ وہ مظلوم پشتون قوم کی اصلی آراکا احاطہ کر سکیں ۔

9۔ چوبیش گھنٹے خبریں  پیش کی جانی چاہئیں  اور غیر ضروری تکرار سے بچنا چاہئے۔خبروں  میں  بہتر مواد پیش کرنے سے چینل کی ساکھ بہتر ہوگی اور لوگ صحیح طور پر سرکاری TV اور اے وی ٹی خیبرAVT Khyber  میں  فرق کر سکیں  گے۔

10۔ خبروں  کا مرکزنگاہ پوری دنیا کی پشتون آبادی ہونی چاہئے بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں  بسنے والے پشتون۔خبروں  کی جزیات آئی ایس پی آرISPR کے ان خبروں  سے مختلف ہونی چاہئیں  جو پی ٹی ویPTV   پر پیش کیں  جاتی ہیں ۔اسی طرح خبریں  پیش کرنے کے تکنیکی پہلوئوں اور فوری خبروں  وغیرہ کے معیار میں  بھی جمالیاتی ذوق کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل ہونا چاہئے۔

11۔ اگر چینل کے لئے بین الاقوامی معیار کے ڈاکیومنٹریز Documentaries   پیش کرنا مشکل ہے تو انگریزی چینلوں  جیسے ڈسکوریDiscovery  ، بی بی سی BBC ،نیشنل جیوگرافک National Geographic  اور ایکسپلوریشن ٹی ویExploration TV   سے پروگرام لے کے اس پر ڈبنگ کی جائے۔لیکن اگر کوشش کی جائے تو افغانستان اور پاکستان کے  پشتونوں  کے مسائل پر مبنی اچھے معیار کے حامل ڈاکیومنٹریز Documentaries  بنائے جاسکتے ہیں ۔

12۔ مختلف طبقہ ہائے فکر کے پشتونوں  کے ساتھ انٹرویوز اور ہارڈ ٹالک"Hard Talk" کی نشستیں ہونی چاہئے جن میں  ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی سپیشلسٹ، ادبی شخصیات ، کھلاڑی اور پروفیشنلز professionals  وغیرہ شرکت کر سکیں ۔

13۔ مذہبی پروگرام ایسے ہونے چاہئیں  جن میں  حاضرین بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں ۔ایسے پروگراموں  کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جو کہ محض خطبات پر مشتمل ہوں ۔اسی طرح سائنسی اور فلسفیانہ طرزِ فکر جیسے سوشلزم، نیشنلزم،مادی پرستی وغیرہ پر بھی پروگرام ہونے چاہئیں  تاکہ کٹّر مذہبی،غیر ترقی پسند اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی مذہبی افکار سے پشتونوں  کو بچایا جا سکے۔

14۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے پرفضا اور تاریخی مقامات کو ترجیحی بنیادوں  پر پیش کرنا چاہئے تاکہ ان علاقوں  میں  سیاحت کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔

15۔ خیبر چینل کو اپنے ویب سائٹ پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ یہ ویب سائٹ استعمال کرنے والوں کا کافی وقت صرف ھوتا ہے لیکن  دوسرے چینلوں  کے مقابلے میں  اس پرکم معلومات حاصل  ہوتی ہیں ۔ 

خبیر چینل کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ وہ پشتون معاشرے کی "صم بکم"والی اس جمود کو توڑ کر ایک نئی تاریخ رقم کریں اور مظلوم اور محکوم پشتون قوم کو اپنے روایتی پشتونولی کے مطابق آزادنہ طور پر زندگی گزارنے میں  مدد دیں ۔لیکن اگر چینل کا مقصد صرف کاروبار کرنا ھو تو یہ بھی تاریخ کی اتھاہ گہرائیوں  میں  دفن ہو جائیگا ۔ 
 
پشتونوں کا مستقبل

پشتون ناقابل تسخیر قدرت کی حامل قوم ہے جس کی وجہ سے تاریخ کے بہت مشکل ادوار سے وہ من حیث القوم سرخرو ہوکر نکلے اور وہ کبھی تاریخ میں  تسخیر نہیں  کئے گئے۔اِسی خوبی نے پشتونوں  کو ہمیشہ ظلم و جبر اور فرنگی تسلط کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیا۔ پہلے ہند میں  اور پھر افغانستان میں  تاج برطانیہ کے خلاف،  افغانستان میں  روس کے خلاف، کشمیر میں ہندو ڈوگرہ راج کے خلاف، پاکستان میں  مشرف حکومت کے خلاف اور NWFP  میں  ایجنسیوں  کے منفی رول کی خلاف آواز بلندکرناتاریخی پشتون کردار رہا ہے اگر اس تابناک تاریخ کے باوجود پشتون قوم جو آمو سے اباسین تک پھیلی ہے آج تاریخ کے ایک تہائی اہم دور پر کھڑی ہے۔ تین دہائیوں  کی جنگ نے افغانستان کو تباہ حال کردیا ہے۔پاکستان افغان  کومت کو غیر مستحکم کرنے میں  پیش پیش ہے جس کے لئے وہ طالبان کو استعمال کررہا ہے۔طالبان افغانستان میں  ناٹو اور ISAF کے خلاف پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے مفاد کی خاطر لڑ رہے ہیں ۔اِس کے برخلاف افغانستان اور فاٹا میں  پشتون اِس جنگ جدل کے نتیجے میں  پس رہے ہیں ۔ پاکستان کی ایجنسیاں  پنجاب میں  القائدہ اور طالبان کو محفوظ مقامات فراہم کررہی ہیں  اور مشرف حکومت تمام مسائل کا ذمہ دار فاٹا کے پشتونوں  کو ٹھہراتی ہے۔عالمی دُنیا کو یہ جاننا چاھیے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ طالبان کو امداد مہیا کررہی ہے جو کہ ناٹو اور ISAF کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔NWFP  ،  فاٹا اور بلوچستان میں  رہنے والی پشتون آبادی سیاسی اور اقتصادی طور پر پنجابی- مہاجر گٹھ جوڑ اور پاکستان کے Corrupt اداروں  کے ہاتھوں  غلام بنی ہوئی ہے۔اِن پشتونوں  کو دوسرے درجہ کے شہری کے طور پر رکھا گیا ہے۔اِن کو مذہب کے نام پر اپنے افغانی بھائیوں  کے خلاف کیا جاتا رہا ہے۔پشتون وطن کے اکثر قدرتی وسائل 60 سال سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں  ہیں ۔ پشتونوں  کی پاکستان کےلئے تمام قربانیوں  کے باوجود میڈیا اور ریاست انہیں  دہشت گرد کے طور پر دکھاتی ہے اور انہیں  اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔پاکستان کی پنجاب Dominated اسٹیبلشمنٹ نے اِس بات کا تہہ کیا ہے کہ پشتونوں  کو سیاسی طور پر تقسیم اور اقتصادی طور پر محروم رکھنا ہی ان کے مفاد میں  ہے۔آج کل ان تمام باتوں  کا ادراک اسی طرح ممکن ہے کہ پشتون اپنے سیاسی حقوق کی خاطر سیاسی جدو جہد کریں ۔یہ جدوجہد ان خطوط پر استوار ہونی چاہے۔ NWFP ، فاٹا، پنجاب اور بلوچستان کے پشتونوں کو ایک صوبے میں اکھٹا کرنا، مکمل صوبائی خودمختاری، وسائل پر اختیار ،مرکزکی وسایل پر اجارداری کا خاتمہ، مرکزی حکومت جو کہ پچھلے تیس سالوں سے پشتونوں کے نام پر بین الاقوامی امداد لے رہی ہے اوران سے فوری بنیادوں پر تعلیم اور بہتری کےلئے فنڈز کا حصول۔ پشتونوں  کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت کے حالات نے پشتون قوم کو سیاسی طور پرمنقسم اور اقتصادی طور پر محروم رکھا ہے۔ مستقبل میں   ایسے حالات اور واقعات کا وقوع پذیر ہونا بعید نہیں  جن کے باعث پشتونوں  کی ملی وحدت ِ افغانستان کو استحکام بخشے گی اور مرکزی اور جنوبی ایشیائ میں  غیر فطری جغرافیائی تقسیم ختم ہوجائیگی۔پشتون پشتونولی اور اسلام دونوں  کے وفادار ہیں  مگر وہ ایک ایسے ملک کے وفادار نہیں  ہوسکتے جس کے تمام اِدارے اُن کے استحصال اور محرومی کی بنیادوں  پر قائم ہوں ۔ 
 
پشتونوں کی سیاسی خودمختاری
 
سیاسی خود مختاری ایک قوم کی ترقی اور تمدن کےلئے پہلی شرط ہے۔اگر ہم ایک قوم کی پسماندگی کی وجوہات کو دیکھیں  تو تمام کی بنیادی وجہ سیاسی خودمختاری کا نہ ہونا ہے۔تمام سامراجی،  آمرانہ اور خاشٹ حکومتیں  عوام کو یہ باور کراتی ہیں  کہ وہ اپنی تعلیم، صحت اور حقوق پر توجہ دیں  حالانکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔دوسری جانب وہ قومی وسائل اور دولت کو دونوں  ہاتھوں  سے لوٹتی ہیں ۔تیسری دنیا کے ممالک میں  مذہبی اقدار اور عقائد مثلاًکہ تقدیر اور قسمت کو اسلئے استعمال کیا جاتا ہے کہ عوام اپنی محرومی کو ایک خدائی عمل سمجھیں  اور اپنے حقوق کی خاطر اور اپنے وسائل کی خاطرکوئی جدوجہد نہ کریں ۔اِن تمام حکومتوں  کے ہاتھ میں  سے سب سے بڑا ہتھیار Divide and Rule ہے۔یہ اِن اشکال میں  استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی تفریق اور فرقہ واریت، ریاستی میڈیا کو پراپیگنڈا کےلئے استعمال کرنا، ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ا ِن تمام شخصیات یا تحریکوں کو کچلنا جو حقوق کی خاطر جنگ کرتی ہیں اور عوام میں محرومی اور مایوسی پیدا کرنا۔
یہ مسلم حقیقت ہے کہ ایک غیر منظم گروہ ہمیشہ اِن حکومتوں  کی ہاتھ میں  کھیلتا ہے جبکہ ایک منظم گروہ جو کہ ایک وژن اور دستور رکھتا ہے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔پشتونوں  میں  اپنی وسائل اور خود مختاری سے کنارہ کشی جو کہ غربت اور ریاستی پروپیگنڈا کا نتیجہ ہے۔ایک اہم وجہ ہے جس سے حقوق پسند اور ترقی پسند تحریکوں  اور قوتوں  کو ناکام کیاگیالیکن اب میڈیا پشتون علاقوں  میں  دہشت گردی اور پاکستان فوج کے ڈراموں  کو دکھا رہی ہے جس کے باعث پشتون اپنے دشمنوں  کو جاننے لگے ہیں  جو کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ،  سول بیوروکریسی،  اسٹیبلشمنٹ دوست پارٹیاں  اور امریکا ہیں ۔نجی الیکٹرانک میڈیا نے پشتونوں  کو اجاگر کرنے میں  بہت اہم کردار ادا کیا ہے یہاں  تک کہ پاکستان کو سرکاری ٹی۔وی پرپشتو پروگرام بند کرنے پڑے اوران کو ایک ایسے چینل پر منتقل کردیاگیا جو عوام کی رسائی میں  نہیں  ۔ طالبانائزیشن کو پشتون قوم کے ساتھ یکجا کرنے کی خاطر خفیہ ادارے NWFP  میں  امن وامان کی صورتحال کو خراب کررہے ہیں ۔اِس کا مقصد یہ ہے کہ پہلے پشتون علاقوں  میں  نسل کشی کی جائے اورپھر جنرل مشرف کے اپنے شہر کراچی میں  جو کہ لسانی طور پر MQM اور سیاسی طور پر فوج اورامریکا کے ساتھ ہیں ۔ جنرل مشرف کی تمام قوتیں  پشتون علاقوں  پر صرف ہورہی ہیں  جو کہ امریکا اور MQM دونوں  کے مفاد میں  ہیں  ۔ اس طرح یہ تصویر دکھائی جاتی ہے کہ پشتون دہشت گرد ہیں  اور اُن کا سیکیورٹی وجوہات کی خاطر قتل جائز ہے۔مشرف حکومت کی راہ میں  واحد رکاوٹ عدلیہ ہے جس کو کراچی میں  MQM سے سخت جنگ کا سامنا ہے اور نواز شریف واپسی میں  حکومت نے عدلیہ کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔پشتون حال اور مستقبل دونوں  میں  مزید مشکلات کا شکار ہونگے۔اگر وہ اس سنگین صورتحال کا داراک نہ کریں- پاکستان میں  پشتون قوم کو زیادہ سے زیادہ ان کے صوبے کا نام اور چند قوم فروش لوگوں  کےلئے وزارتیں  مل سکتی ہیں ۔یہی وجہ سے کہ پشتونوں  کے مسائل کا حل سیاسی خود مختاری میں  ہے۔پشتونوں  کے پاس تین اپشنز ہیں ۔افغانستان میں ضم ہونا،ایک علیحدہ پشتون ریاست کا قیام یا پاکستان کا حصہ رہنا مگرشرائط کے ساتھ جن میں اھم درج زیل ھیں۔ NWFP ، فاٹا، بلوچستان کے پشتون علاقے اور اٹک و میانوالی پر مشتمل ایک پشتون صوبے کا قیام،  صوبائی خود مختاری،  پانی، بجلی اور تمباکو وغیرہ میں اپنا حصہ،  پشتون علاقوں میں صنعت کاری،  افغانستان میں سٹریٹجیک ڈیپتھ کی پالیسی کو ترک کرنا، پشتون علاقوں میں اُس تباہی کا ازالہ کرناجو فوجی آپریشن کی وجہ سے ہوچکی ہے۔ تاریخ میں تینوں اپشنز کی مثالیں  موجود ہیں  مثلاً مشرقی اور مغربی جرمنی کا اکھٹا ہونا، بنگلہ دیش کا قیام اور امریکا اور بھارت میں  صوبائی خود مختاری ۔اِن تین اپشنز میں  سے بہترین کے انتخاب کے بعد ایک قومی ایجنڈا بنایا جائے جس کے مرکزی کردار عوام اورIntelligentsia  ہوں ۔اس کے بعد قیادت کا کام آسان ہوگا۔ عوامی رائے عامہ بنانے میں کے لیے درج زیل عوامل درکار ھوں گے۔ Intelligentsia جیسے کہ فرانس کے انقلاب میں ولٹئیر اور روسو، اور بالثویک انقلاب کےلئے مارکس، اینجلز، ٹراٹسکی اور فیورباخ، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا ، انٹرنیٹ ،  پروفیشنلز مثلا وکلا، ڈاکٹر، انجنئیر، صحافی وغیرہ اور قومی قیادت۔
  (The Frontier Post: 17-09-2007)
 

پشتون اس وقت ایک دورویہ چکی میں  پس رہے ہیں ۔ ایک طرف پشتون دشمن ریاستی ادارے ہیں  جو کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ ہیں  اور دوسری جانب وہ غدار پشتون ہیں  جو اِن اِداروں  اور دوسری استحصالی قوتوں  کے ساتھ مل کر اپنی قوم کے استحصال کی وجہ ہیں ۔مذہبی گروہ پشتون نوجوانوں  کو اسلام کے نام پر قربان کرنے میں  پیش پیش ہیں ۔پاکستانی اقتدار کا ٹولہ لفظ  ’’پشتون‘‘  سے نفرت رکھتا ہے جس کی وجہ سے پشتون علاقوں  کےلئے NWFP/FATA/PATA جیسے غیر قانونی اور غیر آئینی نام رکھے گئے ہیں ۔کچھ لوگ پشتون علاقوں  میں  ایک اصلاحاتی اپروچ کے حمایتی ہیں  جس میں  تعلیم کا فروغ،  غربت کی کمی اور NGO'sکا قیام وغیرہ شامل ہیں ۔یہ اپروچ درج ذیل غلط مفروضوں  پر قائم ہیں ۔
a.       یہ کہ پاکستان کے پشتون آزاد اور خود مختار ہیں ۔
b.      یہ کہ ریاست پشتونوں کے بنیادی بشری حقوق کی ضامن ہے۔
c.       یہ کہ سیاسی پارٹیاں پشتونوں کے حقوق کی ضامن ہیں ۔
d.      یہ کہ پاکستان میں رائج نظام اِسلامی اور صحیح ہے اور یہ پشتونوں کے مسائل کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔
 
اِن غلط فھمیوں  کو ذہن میں  رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل مثبت اھداف ذھن نشین کرنے چاھیے-  اپنے حقوق کےلئے سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ سیاسی خود مختاری کے حصول کا واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کو سیاسی شعور دیا جائے اور اُنہیں اپنے حقوق کی خاطر استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد کےلئے تیار کیا جائے۔پشتونوں کی سیاسی خود مختاری کو اپنا واحد مقصد بنایا جاے ۔پشتون عوام کو اپنے حقوق کی جدو جہد کےلئے متحرک کیا جاے ۔ مستقبل میں  جنوبی ایشیائ میں  بہت سی سیاسی تبدیلیاں  رونما ہونے کا اندیشہ ہے۔ اِن میں  سے چند تبدیلیاں  آزاد بلوچستان،  آزاد پشتونستان ، عظیم تر پنجاب اور سندھودیش کے قیام کی صورت میں ہوسکتی ہیں ۔ جھاں تک پشتونوں کا تعلق ھے تو ہوسکتا ہے کہ چند پشتون اِس تبدیلی کے خلاف ہوں  مگر یہ محض ریاستی دباو اور پراپیگنڈے کے باعث ہوگا۔تاہم حالات کے دھارے کے ساتھ وہ بھی آزاد ریاست کے قیام کے حامیوں  میں  شامل ہوجائیں  گے۔ اِس کے بعد افغانستان کے ساتھ الحاق اور بلوچستان کے پشتونوں  کی خود مختاری الگ چیلنج ہوگی۔قرآین بتاتے ھیں کہ ھر قوم اپنی فطری منزل پانا چاھتی ھے اور اسی کو دیکھتے ھوے پاکستان میں دوسراگریٹ گیم شروع ہوچکا ہے۔ 
 
پشتون وطن اِس وقت دُنیا کی قوموں  کےلئے شطرنج کی بساط بنا ہوا ہے جو کہ اپنے مفادات کا تحفظ کررہی ہیں ۔مثلاً خفیہ ادارے، القائدہ،  CIAاور مذہبی ٹولے وغیرہ ۔ پاکستانی خفیہ اداروں  نے پشتون وطن کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کا اڈا بنادیا ہے۔ خفیہ ادارے اب قومی ادارے نہیں  رہے بلکہ یہ فوجی آمریت کی امداد کرنے میں  پیش پیش ہیں ۔گویا آرمی چیف کی قیادت میں  سے اثر و نفوز رکھنے والی جماعت کے ورکر ہیں ۔اِن کے پاس وہ تمام وسائل ہیں  جس کی مدد سے یہ سیاسی بساط کو کسی بھی وقت لپیٹ سکتے ھیں۔فوجی آمریت کی اِس صورتحال کی وجہ سے بین الاقوامی برادری کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پشتون اور NWFP  دہشت گردی کے ساتھ منسلک ہیں ۔ فوجی آمریت میں  امن اور امان کی اِس خراب صورتحال نے پشتونوں  کو اِس پر مجبور کیا ہے کہ وہ حقوق اور سیاسی خودمختاری کی جدو جہد سے کنارہ کشی اختیارکریں ۔خفیہ اداروں  کے اِن کرتوتوں  سے پشتونوں  میں  تمام ترقیاتی سرگرمیاں  رکی ہوئی ہیں  اور یہ Q-League اور MQM کو سپورٹ کرنے میں  مگن ہیں ۔خفیہ ادارے فوج کو پشتونوں کی نسل کشی کرنے میں  مدد کررہے ہیں  جو کہ پاکستان کی فوجی آمرانہ قوتوں  کے خلاف ایک آواز بلند کرسکتے ہیں ۔ قبائلی علاقہ جات میں  بھی یہ ڈرامہ خفیہ اداروں  اور طالبان کے گٹھ جوڑ سے ہورہا ہے جس کا مقصد افغانستان میں  دہشت گردی کو امداد دیتا ہے۔خفیہ ادارے افغانستان میں  سٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی کو پروان دینے کی خاطر طالبان کو مدد دے رہے ہیں ۔القائدہ پاکستان بھر میں  منظم ہیں  اور پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں  کے خلاف سرگرم ہے اور دونوں  ملکوں  کے نوجوانوں  کو اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کررہے ہیں ۔ CIA ، NWFP اور بلوچستان میں سرگرم ہے اورچند نام نہاد قوم پرست قوتوں ، مذہبی گروہوں اور جرائم پسند عناصر کو استعمال کررہی ہے۔اِن کا مقصد سامراج دشمن قوتوں کی بیخ کنی، بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا تاکہ چین کے خلاف گوادر کو استعمال کیا جاسکے اورFANA میں چین کے خلاف امریکی مفادات کا تحفظ ہیں ۔ طالبان اور MMA کی شکل میں  موجود مذہبی گروہ پشتون سیاست میں  وہ عناصر ہیں  جو فرقہ وارانہ اور اسٹیبلشمنٹ دوست مذہبی تناظر رکھتے ہیں ۔اِن گروہوں  کا مقصد پشتون سادہ لوح عوام کی مذہبی جذبات اور اُن کی غربت کا فائدہ اُٹھانا ہے۔ پشتونوں  کی قیادت اِس وقت اسٹیبلشمنٹ اور اُن کی ساتھ ملحقہ گروہوں  مثلاً مہاجر دہشت گردوں ،  پنجابی اور سندھی وڈیروں  اور سیاسی جماعتوں  (ق لیگ،  ن لیگ وغیرہ) اورمذہبی اجارہ داروں یعنی MMA وغیرہ کے ہاتھ میں  محصور ہے۔یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے کبھی بھی پشتون حقوق کے لئے علم بلند نہیں  کیا۔یہ حالات پشتونوں  کی آنکھیں  کھولنے کےلئے کافی ہونے چاہئیں ۔پشتون اس وقت غلامی کی حالت میں  ہیں  ۔ احمد شاہ دُرانی کا دور گزر چکا ہے۔پشتون قیادت کا اصلی مقصد یہ ہونا چاہئےے کہ اِس متنازع سرحد (Durand line) کے دونوں  جانب ایک پشتون ملی تحریک کو سرگرم کیا جائے جو کہ ان کے مسائل حل کرے اور اُنہیں  عصرِ حاضر کے چیلنج کا سامنا کرنے کےلئے تیار کرے۔اِس پشتون ملی تحریک کو پشتونوں  میں  ایک قومی جذبہ اجاگر کرنا چاھیے اور تمام دُنیا کے پشتونوں  کو اس تحریک میں  شامل کیا جائے۔اِس تحریک کا مقصد پشتون دشمن سازشوں  کو بے نقاب کرنا اور پشتون عوام میں  سیاسی شعور اُجاگر کرنا ہو۔ اس تحریک کے بڑے مقاصد پشتونوں  کی سیاسی خود مختاری کا حصول اور پشتونوں  کے ملی تشخص کو مضبوط کرنا ہو۔اِس تحریک کوپشتون سماجی اور ملی تشخص کے دو اہم ستونوں  جو کہ پشتون سماج میں  مذہبی اور سیکولر روایات کا امتزاج رکھتے ہیں  یعنی ’’حُجرہ‘‘  اور  ’’جُومات (مسجد)‘‘  کو دوبارہ زندہ کرناہو اور پشتونوں  کی ترقی اور خوشحالی کی خاطر ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں  لانا ہو جس کی بنیاد  ’پشتونولی‘  اور سیاسی اور اقتصادی خود مختاری ہو۔پاکستان میں  پشتونوں  کا معاملہ غلاموں  جیسا ہے۔اس لئے پشتون قیادت کو پشتونوں  کی سیاسی اور اقتصادی خودمختاری کی خاطر جدوجہد کرنی چاہیے۔ 


No comments:

Post a Comment