دماغ ایک طرح سے انسانی جسم کا کنٹرول روم ہے۔یہ نہ صرف انسانی سوچ ، تصوارات ،جذبات اور احساسات کوتخلیق کرتا ہے بلکہ انسانی سوچ اور کردار پر قدرت بھی رکھتا ہے ۔ انسانی اعمال خواہ وہ جبّلی ہوں یا ماحول کے ردّ عمل میں پیدا ہوئے ہوں یا ان کا تعلق ذہانت سے ہو اور یا دانستہ طور پر کئے گئے کا م ہوں ، تما م کے تمام انسانی دماغ کے قابو میں ہوتے ہیں ۔انسانی دماغ انسانی ذہن اور ادراک کا گھر ہے یعنی ذہانت کو دماغ کی ایک اہم خصوصیت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انسانی ذہن دو واضح خطوط پر کام کرتا ہے یعنی شعوری اور لا شعوری ۔ لاشعور انسانی ذہن کے زیادہ تر حصے پر محیط ہے اور یہ انسانی جبلتّوں ،احساسات، خواہشات اور جذبات کا منبع ہے۔اسی طرح تخلیق، اختراع اور چھٹی حِس کا تعلق بھی لاشعور سے ہے۔لاشعور طاقتور انسانی تقاضوں اور محرکات کا گھڑ ہے اگر چہ ماہریں ان کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں ۔ایڈلر، میک ڈوگل،فرائڈ، ژانگ،مارکس اور رفیع الدین لاشعور کے مختلف توضیعات پیش کرتے ہیں اور لاشعور پر بہت سارا تحقیقی کام ابھی باقی ہے۔.شعور ذہن کے دس فی صد حصے سے بھی کم پر مشتمل ہے اور بنیادی طور پر لاشعو ر کے ترجمان کے طور پر کام کرتا ہے۔ شعور درج ذیل امور سرانجام دیتا ہے۔ لاشعوری خواہشات کی ترجمانی کرنا، منطق اور استدلال کے ذریعے لاشعوری جذبات و خواہشات کو جواز مہیا کرنا اور ان کو عقلیت کے رنگ میں رنگنا، ان لاشعوری جذبات و خواہشات کومعاشرے میں ایسے انداز میں پیش کرنا تاکہ لوگ ان کو قبول کرلیں، لاشعوری عوامل کو بیرونی دنیا سے جوڑنا اور انسانی جسم کے سہارے لاشعور ی احکامات کی تکمیل کرانے میں مدد کرنا۔
شعوری طور پر انسان اظہار کے لئے دو قسم کے وسیلے استعمال کرتا ہے۔ اوّل تقریر اور دوم تحریر۔دونوں کے ماخذ سوچ اور فکر ہیں ۔انسانی سوچ دراصل شعور کی اس جدوجہد کا نام ہے جس کا مقصد لا شعوری خواہشات اور محرکات کوسمجھنا اور پرکھنا ہے۔اگر شعور ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک خوشحال اور مطمئن شخصیت کا تصور ممکن ہے۔یہ ایک ایسی حالت کا نام ہے جس میں شعور اور لاشعور دونوں ہم آہنگ رہتے ہیں ۔انسان کی چھپی صلاحتیوں کو ترقی کا موقع ملتا ہے اور بہتر کام کرنے کی استعداد بڑہ جاتی ہے۔لیکن اگر شعور اس جدوجہد میں ناکام ہوتا ہے توشعور اور لا شعور کے درمیان تضاد جنم لیتا ہے اور نتیجتآ انسان بے چینی، پریشانی، احساس جرم اور ڈیپرشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ہمارے بہت سارے حرکات و سکنات کے پیچھے لاشعوری رویے کارفرما ہوتے ہیں ۔جب انسان کی سوچ اور عمل میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی تو انسان ذہنی انتشار اور دوغلا پن کا شکار ہوجاتا ہے۔پس بہتر انسانی رویوں کا انحصار سوچ اور عمل ہیں ہم آہنگی کا ہونا ہے۔ شعور اور لاشعور کے درمیان تضاد ہمیں سوچ اور عمل کے درمیان تضاد کی شکل میں نظر آتا ہے۔یہ تضاد تمام نفسیاتی بیماریوں کی جڑ ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ جو ہماری سوچیں ہوتی ہیں ویسے ہی ہمارے کام ہونے چاہئیں ۔انسان کی شخصیت اور کردار اسکی سوچوں اور نظریات کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ پس وہ نظریات جو انسانی معاشرے کی مجموعی ترقی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں ان کی پرچار کرنی چاہیے تاکہ ان سے ایک بہتر سماج بن سکے۔
ان پٹ آوٹ پٹ کا قانون
Input کے بغیر کوئی Output نہیں۔ Input ہم اُس کوشش اور جستجو کو کہتے ہیں جو کہ جسمانی یا ذہنی ہو۔ہر انسان اپنے کئے کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ اُس کے عمل کا نتیجہ اُس کے Input پر مُنحصر ہوتا ہے۔اِن پٹ آئوٹ کا قانون تمام مذاہب، فلسفوں اورنظامِ ہائے زندگی کا بنیادی قانون ہے۔ ایک قوم کی قسمت کا دارومدار اُس قوم کی اجتماعی Input ، جستجو اور کوشش پر ہوتا ہے۔Input/output کا قانون اور اجتماعی رویوں کے مدد سے انسانوں اور قوموں کے انفرادی اور اجتماعی رویوں پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ ان پٹ آوٹ پٹ کے قانون کے بارے میں درج ذیل حقائق اہم ہیں ۔Input انفرادی اور اجتماعی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ہر Input کا نتیجہ وہ نہیں نکلتا جو ہم چاہتے ہیں کیونکہ ہمارا Input غلط ہوسکتا ہے۔ اصل حقیقت اس میں پنہاں ہے کہ ہم جان لیں کہ کسی خاص نتیجے کو پانے کےلئے مجھے کیا کرنا چاہئے۔ یہ تمام سائنسی تحقیقات کا بنیادی سوال ہے۔انسانی علم کی ارتقائ دراصل اِس سوال کا جواب ہے۔صحیح Input کسی دوسرے Input کا Output بھی ہوسکتا ہے۔صحیح نتیجہ تک پہنچنے میں سب سے بڑی دقت Probability کا قانون ہے۔صحیح Input جاننے کےلئے انسان کو بہت سے کام اور تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔چاہے وہ نیا input جاننے کےلئے ہو یا صحیح Input کی تشخیص کے لئے ہو۔صحیح Input جاننا اس وقت انتہائی ضروری ہوتا ہے جب ایک قوم کے اجتماعی مسائل کا حل تلاش کرنا ہو۔اگر ایک قوم اپنے اجتماعی مسائل کے حل کی تلاش میں صحیح Input تلاش نہ کرسکے تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ نہیں تو وہ قوم قصّہ پارینہ بن جاتی ہے۔
اگرقومی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لئے لوگوں نے مطلوبہ جدوجہد(اِن پٹ)کی ہے تو اس صورت میں اِن پٹ ،آوٹ پٹ کا قانون لاگو ہوتا ہے اور قوم لیڈرشپ کو جنم دے سکتی ہے یا اپنی بقا کی جنگ لڑ سکتی ہے۔لیڈرشپ پہلے مرحلے پر اپنی وکالت یااپنے جواز کی تائید میں بحث چھیڑتا ہے اور دوسرے مرحلے پر اپنے وژن vision کو بنیاد بناکر قوم کی راہنمائی کرتاہے۔جس قوم کی لیڈرشپ کے پیچھے دانشوروں کی مدد موجود ہو وہ مل کر قوم کی مجموعی توانائی کو قومی اہداف کے حصول میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ یہاں پراِن پٹ، آوٹ پٹ قانون کے اطلاق کے لئے تاریخ سے چند مثالیں لیتے ہیں- قوم پرستوں کا نظریہ1970 کی دہائی میں اس وقت درست ثابت ہوا جب بنگالیوں نے پاکستان کی پنجابی اکثریت والے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے استحصال کے خلاف جدوجہد کی اور ایک الگ ملک کی بنیاد ڈالی۔بنگلہ دیش کے قیام میں دو اِن پٹ کارفرما تھے یعنی مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بنگالیوں کے وسائل کا استحصال اور بنگالیوں کا اپنے لئے ایک الگ ملک بنانے کے لئے جدوجہد آزادی- پاکستان کاسیاسی عدم استحکام دوسری مثال ہے۔ سیاسی استحکام سیاسی عمل کا آوٹ پٹ ہے۔پاکستان میں تسلسل کے ساتھ فوجی حکومتیں چلتی آ رہی ہیں اور یہ آمرانہ حکومتیں ایک طرف تو سیاسی عمل کی رفتار کو وقفے قفے سے کم کرنے کے درپے ہوتی ہیں اور دوسری طرف لوگوں کو مسلسل حکومت کے تقدس کی پٹی پڑھاتی رہتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں جمہوریت نہ پنپ سکی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر فیصلے پارلیمنٹ کی بجائے پینٹاگون میں ہوتے ہیں او ر چیف جسٹس آف پاکستان کو خود انصاف کی بھیک مانگنا پڑتی ہے جب وہ آمرانہ دور حکومت میں مظلوم طبقے کو انصاف دینے کی کوشش کرتا ہے۔یہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ کا آوٹ پٹ ہے۔ پاکستانیوں نے کبھی بھی آمروں کا راستہ نہیں روکااور ان کی مجرمانہ خاموشی نے معمولی لوگوں کو منصب اقتدار پر بٹھا کر دیو ہیکل عفریتو ں میں تبدیل کردیا۔اگر اب بھی پاکستانی عوام ہوش کے ناخن نہیں لیتے تو اِن پٹ ،آوٹ پٹ کا قانون ان کو معاف نہیں کرے گا۔
(The Frontier Post: 18-06-2007)
تقدیر اقوام - بربادی یا عروج
تاریخ انسانوں کی مجموعی یاداشت ہے اور فلسفہ تاریخ انسان کی تجزیاتی صلاحیت ہے جس کی بدولت وہ اچھائی اور برائی یا صحیح اور غلط میں تمیز کرسکتاہے۔ذہانت اگر پرکھنے کی صلاحیت کا نام ہے تو دوسری طرف حافظہ ہماری تمام یاداشتوں کا مجموعہ ہے۔پس تاریخ اور فلسفہ تاریخ بنی نوع انسان کی مجموعی ذہانت کا نام ہے اور فلسفہ تاریخ ہمیں اقوام کی عروج و زوال کی وجوہات جاننے میں مدد دیتا ہے۔ اگر ہم کسی قوم کی عروج و زوال کے پس منظر کا مطالعہ کریں تو ایک بات عیاں ہے کہ"افادیت" عروج و زوال کی ناگزیر وجہ ہے۔وہ قوم جو انسانیت کے لئے کسی نہ کسی سطح پر افادیت رکھتی ہے وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتی ہے اور وہ قوم جو انسانیت کے وجود کے لئے مصیبت کا باعث ہو،تاریخ کے صفحات سے اسکا نام یوں مٹ جاتا ہے گویا اسکا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔صر ف وہی قوم ترقی کی معراج تک پہنچتی ہے جو مجموعی انسانی ارتقا میں اپنا حصہ ڈالتی ہے اوریہ کوشش بلاواسطہ طور پراس قوم کے بقا کی ضمانت بن جاتی ہے جو کہ بصورت دیگر قدرت کے ان قوانین کے گھیرے میں ہوتی ہے جس کی منزل فنا ہے۔ انسانوں کے لئے اپنی افادیت پیدا کرنے کا سب سے تیز ترین ذریعہ ان تمام تخلیقی صلاحیتوں پر بھرپور توجہ دینا ہے جو انسانی وسائل کی شکل میں کسی قوم کے اندر موجو د ہوتے ہیں ۔تخلیق حاصل حیات ہےاور ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔یہ سرمایہ ٹیکنالوجی کے لئے خام مال جیساہے۔ٹیکنالوجی ترقی کی چابی ہے۔ترقی عروج کا راستہ ہے۔عروج تب باعث افتخار بن جاتا ہے جب پوری قوم کو عروج کا پھل مل جاتا ہے اور اسی طرح قوم انسانیت کے لئے مفید بن جاتی ہے اور یہ افادیت بلاواسطہ طور پر قوم کی بقا کا ضامن بن جاتا ہے۔اگر قوم ترقی اور خوشحالی کو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بانٹتی اور یا پورے نسل انسانی کو اسکا فائدہ نہیں پہنچاتی اس قوم کا زوال یقینی ہے۔پس پسماندہ اقوام اپنی پسماندگی کی خود ذمہ دار ہیں جبکہ ترقی یافتہ اقوام بجا طور پر ترقی اور خوشحالی کی حقدارہیں ۔ کہنے کو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ پسماندہ ممالک میں استحصالی حکومتیں عوام کو پسماندہ رکھتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان ممالک میں ایسی حکومتیں کیونکر قائم ہیں ۔اگر وھاں آمرانہ حکومتیں ہیں تو عوام ان حکومتوں کے خلاف کیوں نہیں اٹھ کھڑے ہوتے؟اگر جمہوریت ہے اور پھر بھی عوام کو انصاف نہیں ملتا تو عوام ایسے نظام کے خلاف کیوں نہیں آواز اٹھاتے؟ ہم کس طرح مثبت تبدیلی کی توقع کر سکتے ہیں جب ہم خود اس تبدیلی کو لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے؟دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا بہت آسان ہے لیکن اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا اور ان کو دور کرناانتہائی مشکل ہے۔ہمارے سروں کے اوپر جو لوگ سوار ہیں وہ ہمارے اپنے اِن پٹ کا آوٹ پٹ ہے۔اگر اوپر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ نیچے کہیں نہ کہیں خرابی موجو دہے کیونکہ کیکر کے درخت پر آم نہیں اگا کرتے-
قومیں تب وجود میں آتی ہیں جب ان کی ایک مشترکہ زبان ، نسل یا جغرافیہ ہو۔درج ذیل وہ اہم نکات اور عوامل ہیں جس سے کسی قوم کی عروج یا برباد ی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی قوم کا ایک مشترکہ نظریہ حیات ہو تو اس قوم کی جدوجہد بارآور ہوگی۔اگر نظریہ حیات فطرت کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہو تو قوم ترقی کے کمال کو پا لیتی ہے۔اگر کسی قوم کی مجموعی اِن پٹlaws of collective behavior کے ساتھ ہم آہنگ ہے تو ان کی جدوجہد (اِن پٹ) بھی فطرت کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہوگی۔اگر کسی قوم کا اِن پٹ فطرت کے قانون کے ساتھ ہم آہنگ ہے توقوم اپنے اہداف حاصل کرلیتی ہے۔اگر قومی اہداف فطرت کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہیں تو قوم ترقی کے عروج تک پہنچ جاتی ہے۔اگر قومی اہداف فطرت کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں تو جدوجہد بے معنی رہ جاتی ہے یااس صورت میں صرف ناکام تجربات کی شکل میں رہ جاتی ھےبشرطیکہ اس قوم پر بیرونی دنیا کی طرف سے فوجی ، تکنیکی اور علمی یلغار نہ ہو۔ اگر کسی قوم کا اجتماعی رویہ تاریخ کے دھارے کے ساتھ ہم آہنگ ہے او ر ان کا وژن vision واضح ہے تو اجتماعی اہداف حاصل ہو جاتے ہیں اور وہ قوم انسانیت کے ارتقا کے بہتر افکار کی بدولت ایک بہتر نظریہ حیات کی پرورش کرتی ہے اور انسانیت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے کیونکہ اس قوم میں جستجو،معرکہ خیزی،تخلیق،جدّت، تخقیق اور ترقی کا جذبہ ہوتا ہے اور وہ اس قابل ہوتی ہے کہ اپنے لئے نئی راہیں تلاش کرسکے – یھی قوم صدیوں سے چلی آرہی ثقافتی اقدار کی وارث ہوتی ہے جن کی بدولت اس قوم کی ثقافت اور زبان تجربات اور عقل و دانش کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے اور وہ اپنی زبان، نسل،جغرافیہ، ثقافت،روایات اور تہذیب کے ساتھ گہرا رابطہ رکھے ہوئے ہوتی ھے۔ فطرت اس قوم کے ساتھ ہے جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے۔صرف ترقی کے معراج تک پہنچنے کی جدوجہد ہی کسی قوم کی وجود کو جواز فراہم کر سکتی ہے ورنہ فطرت کے ظالمانہ قوانین کسی کو معاف نہیں کرتے۔ترقی پسند اقوام تاریخ کے دھارے کے ساتھ چمٹی رہتی ہیں اور ارتقائی عمل کے عالمگیر اصول ان کی جدوجہد کو تیز سے تیز تر کر دیتے ہیں ۔جس قوم میں جدوجہد کا مادہ نہیں ہوتا وہ قوم ہر وقت بیرونی حملوں کی زد میں رہتی ہے اور نتیجتا یا تو کوئی اسے فتح کرلیتا ہے اور یا وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔
(The Frontier Post: 19-06-2007)
عوامی طاقت کا سرچشمہ
مستقبل کے لئے ایک واضح لائحہ عمل یا وژن vision اکیسویں صدی میں کسی قوم کی بقا کے لئے اوّلین شرط ہے۔اسکے بغیر کوئی بھی قوم اپنی جدوجہدکوکسی مخصوص سمت میں آگے نہیں لے جا سکتی۔یہ وژن ماضی اور حال کو سمجھے بغیر نہیں حاصل کی جا سکتی۔انسانی تہذیب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تہذیبی ارتقا زرعی دور سے شروع ہو کر صنعتی دور میں اور اسکے بعدعہد حاضر کے انفارمیشن کے دور میں داخل ہوا ۔ زرعی دور میں زمین کی ملکیت ایک بیش قیمت سرمایہ ہوا کرتی تھی،صنعتی دور میں اسکی جگہ محنت اور مشقتنے لے لی جبکہ آجکل کے انفارمیشن کی دنیا میں علم اور ہنر سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔آج کے دنیا میں علم و ہنر کا مطلب ہے زیادہ کمائی۔چونکہ دنیا میں اقوام کے درمیان سخت مقابلہ پایا جاتا ہے اس لئے سائنس اور ٹیکنالوجی دورِجدید میں عوامی طاقت کے سرچشمہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کاراز جان لیا ہے اور وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ فطرت کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے قابو میں کرسکیں ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کو اہمیت دینے کی وجہ سے ان ممالک کے عوام بھی طاقتور اور خوشحال بن گئے ہیں ۔بالفاظِ دیگر کوئی ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں جتنی زیادہ ترقی کرے گا اس ملک کے عوام اتنے زیادہ طاقتور ہوں گے۔ اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام پیدا کرنے کے لئے یا ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شامل ہونے کے لئے سب سے موثر طریقہ علم ،تحقیق اور ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔جب تک ٹیکنالوجی کسی ملک کے ثقافت کا حصہ نہیں بن جاتاترقی کا حصول ناممکن ہے۔ ٹیکنالوجی استحصالی طبقوں سے آزادی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔استعماری قوتوں کے خلاف جنگ صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی جیتی جا سکتی ہے۔ دورِ جدید میں انفارمیشن ریولوشن نے اقوام عالم کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی بقا کی خاطر مندرجہ ذیل اہداف کو سامنے رکھے-
1۔ Techno-Creative Culture
تخلیق بنی نوع انسان کا سب سے اہم سرمایہ ہے۔ٹیکنالوجی اسی تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے۔ وہ کلچر یاروِش جو ٹیکنالوجی کی تخلیق کا سبب ہے اسے تکنیکی و تخلیقی رکلچرTechno-Creative Cultureکہتے ہیں ۔ ترقی کی شروعات تکنیکی و تخلیقی کلچرTechno-Creative Cultureاپنانے سے ہوتی ہے ۔ درحقیقت تاریخ میں اب تک جتنے بھی ترقی کے شعبہ جات ہیں ان کی تقسیم تکنیکی اور تخلیقی کلچرکی مرہون منت ہے۔ دورِ جدید میں اسی طرح کی ایک واضح تقسیم
Digital Divide ہے جس نے الیکٹرانک، نیوکلیر اور جینیٹک انجینئرنگ کو جنم دیا ہے
2 ۔Knowledge- based Economy
اقتصادیات یا دولت کا نظم ونسق اگر علم کی بنیادپر قائم ہے تو دورِجدید میں اقتصادی بقا کی جنگ جیتی جا سکتی ہے ۔کیونکہ اقتصادیات کی بنیا د کیپٹل Capital ہے۔کیپٹل ٹیکنالوجی کی پیدوار ہے اور ٹیکنالوجی علم کی۔تجارتی منڈیوں میں بڑھتا ہوا مقابلے کا رحجان تاجروں کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ساکھ بچانے کی خاطر ٹیکنالوجی کا استعمال کریں بلکہ اس سے فایدہ اٹھا کر مارکیٹ میں اپنے لئے مقام بھی پیدا کریں ۔بین الاقوامی سطح پر پیداوار کا اعلٰی معیار پرکھنے کے لئے آئی ایس او ISO اور سی ایم ایم CMM جیسے پیمانے موجود رھے ہیں جنہوں نے صنعت اور تجارت کے شعبوں کو پیچدہ تر بنا دیا ہے اور جن کی وجہ سے صنعت کار اور تاجر مجبور ہیں کہ وہ علم اور ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں ۔پس اقتصادیات ِ بالعلم دورِ جدید میں دیرپا معاشی ترقی کا ضامن ہے۔
3۔E-governance based Politics
اکیسویں صدی میں ریاستی امور statecraft چلانے کے لئے ای۔گورنس ایک لازمی جزہے۔ای۔گورنس کے اصول شفافیّت transparency اور پیش گوئی predictability پر مبنی ہیں جن کی بدولت صحیح منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے اور پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں ۔جب تک تعلیم ، زراعت ،صنعت و حرفت اور مجبوعی اقتصادی ترقی کو ای۔گورنس کے سانچے میں نہیں ڈالا جاتاتب تک یہ خطرہ موجود رہے گا کہ پوری قوم ریاستی پروپیگنڈا کے جعلی ہنھکنڈوں ،یرغمال ذرایع ابلاغ ،کٹھ پتلی سیاستدانوں کے جذباتی تقاریروں ،شخصیت پرستی اور اندھے عقاید کا شکار رہی گی۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم قومی سیاست کو ای۔گورنس کے سائنسی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں ۔ گڈ گورنس good governance شفافیت، احتساب،میرٹ اور قومی مفاد کے تصورات ای۔گورنس کے بغیر بے معنی ہیں ۔
4۔ Industry-based Education
تعلیم کو صنعت کا درجہ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔نہ صر ف تعلیم کو صنعت کا درجہ دینا اہم ہے بلکہ تعلیم کو صنعت کا تابع کرانا بھی ضروری ہے تاکہ ایسے ہنر مند افراد پیدا کئے جا سکیں جو کہ تجارت، صنعت، کارخانوں اور افسر شاہی کو چلا سکیں اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں ۔ نصاب عہد ِحاضر کی روح کے مطابق ہواورمارکیٹ کی ضروریا ت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔اگر تعلیم نظام اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے توصنعت ہنر مند افراد کی بدولت ترقی کرے گا اور پیداوارزیادہ ہوگی، صنعت کاری کا عمل تیز تر ہوگا اور ہنر مند افراد کے لئے زیادہ تعدا د میں نوکریاں دستیاب ہوں گی۔بصورتِ دیگر اگرحکومتی تعلیمی نظام میں یہ صلاحیت موجود نہیں تو صرف سند یافتہ لوگ پیدا ہوں گے جو نہ صرف معاشی لحاظ سے بے منفعت ہوں گے بلکہ معاشرے پر بوجھ بھی ہوں گے۔ایسی صورت میں بے روزگاری بڑھے گی اور کرپشن میں اضافہ ہوگا۔اگر تعلیمی نظام ایسے افراد پیدا کریں گے جن کی مارکیٹ میں کوئی وقعت نہ ہو تو ایسی صورت میں حکومت کے لئے بے روزگاری پر قابو پا نا مشکل ہو جائیگا ۔اگر بے روزگاری کی شرح ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو معاشرے میں جرائم بڑھ سکتے ہیں اور حکومتی بجٹ کا زیادہ تر حصہ جرائم کی روک تھام پر صرف ہوگاکیوں کہ تعلیم یافتہ طبقہ اگر جرائم شروع کریں تو غیر تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں ایسے جرائم پیچیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کو ختم کرنا بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اگر تعلیمی نظام افراد کی استعداد بڑھانے کی بجائے ان کی نالائقی میں اضافہ کریں تو پورانظام کرپشن کا شکار ہوجاتا ہے۔
5۔ WWW-based Morality
وہ اخلاقی نظام جس نے اقوامِ عالم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا ہے اسے میں اخلاقیات کے تین ڈبلیو کا نام دوں گا۔
My worth is my work and my work is my worship
یعنی میری قدرو قیمیت میرا کام ہے اور میرا کام میری عبادت ہے۔
اس اصول کا یہ مطلب ہے کہ کسی انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کے کام سے لگایا جا سکتا ہے اور جب تک کوئی انسان اپنے کام کے ساتھ عبادت کی حد تک لگاو نہیں رکھے گا وہ اپنی قدرو قیمت پیدا نہیں کر سکے گا۔
The Frontier Post: 08-07-2007
No comments:
Post a Comment