Tuesday

حصہ سوم – پشتون اور پاکستان

انتخابات 2008 میں اے این پی کی کامیابی – تجزیہ اور توقعات
 
فروری 2008 کے انتخابات میں  اے این پی کی کامیابی NWFP    میں  امن کے قیام اور اسٹیبلشمنٹ کے  ساتھ ممکنہ خفیہ ذیل کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔تاہم اس  کامیابی کا تناظر دیکھنا بہت ضروری ہے۔ وہ چند وجوہات جس کی وجہ سےANP کو اقتدار کا موقع دیا گیا ہے وہ یہ ہوسکتی ہے - مستقبل قریب میں ممکنہ  حریت پسندوں کو ANP کے ذریعے کنٹرول کرنا،  ANP کو ناکام کرکر پشتون وطن دوست جماعتوں کو  نااہل ثابت کرنا، ANP کے ذریعے فاٹا میں ممکنہ امریکی مداخلت کی راہ روکنا تاکہ سٹریٹیجک ڈیپتھ  کی حکمت عملی کودوام دیاجاسکے۔اِس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ANP اِسلام آباد کے عزائم سے باخبر  رہے۔ 2008 انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مشرف حکومت کی جانب سے معلق پارلیمان بنانے  کی ایک کوشش ہے تاکہ مشرف دوست پارٹیوں اور گروہوں پر انحصار بڑھایا جاسکے۔ چنانچہ  ANP مرکزمیں حکومت کی مدد اور پشت پناہی کو تیار رہے۔ ANP کو PPP کے ساتھ مخلوط حکومت  بناکر سیاسی تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ANP  کو ن۔لیگ کے ساتھ 1997کی معاہدے کو مد نظر رکھتے  ہوئے اِس دفعہ مرکز کے ساتھ باہمی مفاد کو دیکھتے ہوئے معاہدہ کرنا چاہیے۔ ANP کو یہ ذہن نشین کرنا  چاہئے کہ مرکزی حکومت شاید زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔  اس تناظر میںANP  کی حکومت کو درج زیل  تجاویز دی جاتی ھیں: امن کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاسی اور اصلاحی تناظر میں   ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ANP کو یہ حقائق واضح کرنے چاہئیں  کہ پشتون علاقے میں دہشت گردوں کی ذمہ دار پاکستان کی سٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی ہے جس کے تحت دہشت گردوں کو سیاسی، مالی اور  جنگی پشت پناہی دی گئی اور اب یہ گروہ ISAF اور  NATO کے خلاف افغانستان میں سرگرم ہے۔  پاکستان امریکہ اور NATO کےساتھ ڈبل گیم میں مصروف ہے جس کے تحت طالبانائزیشن کو اپنے مفاد  کی خاطر استعمال کیا جارہا ہے اور امریکی امداد کو فاٹا اور دوسرے علاقوں میں بحالی کےلئے نہیں استعمال  کیا جارہا۔صوبائی خود مختاری کا حصول دوسرا بڑا مقصدہونا چاہیے ۔جسکے تحت ایک متحدہ پشتون  صوبہ جو کہ NWFP ،  اٹک،  میانوالی اور بلوچستان کے پشتون علاقوں  پر مشتمل ہو۔  کنکرنٹ لسٹ  کا خاتمہ ھو۔  پشتو کو سر کاری زبان کا درجہ دیا جاےاور فاٹا کوخود مختار حیثیت دی جاے۔   ANP کو  فاٹا اورباقی پشتون علاقوں کےلئے امریکی امدادمیں حصہ حاصل کرنے کےلئے بھی آواز بلند کرناچاہیے۔ اب  ANPکےلئے یہ ضروری ہے کہ صوبے کو دستیاب تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی زندگی میں  حقیقی اور مثبت تبدیلی لائی جائے جسکی بدولت ان کی زندگی میں ترقی اور خشھالی آے۔ آخر میں اے این پی کو صدیوں پرانے پشتون کلچر اور پشتونولی کو دوبارہ زندہ کرنے کےلئے کوشش تیز کرنی چاھیے۔افغان قوم  کی بقامیں پشتونولی کا نہایت اہم کردار ہے۔ پشتونولی سے علیحدگی پشتونوں کو اپنی صدیوں پرانی اصل  سے الگ کردیگی۔یہی پشتون قام کے بہترین مفاد میں ہے۔
  پشتون اور پاکستان کی بقا
 
پاکستان کی بقا کو دو اہم وجوہات سے خطرہ ہے۔ اول جمہوریت کاریاست و سیاست کی بنیاد نہ ہونا اور دوم صوبوں کو خودمختاری دینے سے انکار۔ امریکا اور دوسری بیرونی قوتیں  پاکستان میں  جمہوریت کے نہ ہونے کی راہ میں  بڑی رکاوٹیں  ہیں ۔ پاکستان میں  امریکی مفادات کے پاسدار پاکستان کی آمرانہ اور فیوڈل قوتیں  ہیں ۔امریکا پاکستان میں  فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کرتی رہی ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ پشتون،  سندھی اور بلوچی حریت پسند عناصر کو کچلنے کےلئے ظالمانہ ہتھیار استعمال کرتی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور خفیہ اداروں  میں  بلوچ،  سندھی اور پشتون نمائندگی بہت محدود ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مظلوم قوموں  میں  مذہبی انتہا پسندی کا بیج بوکر اُن کو تقسیم کرتی ہے۔پشتون علاقوں  میں  مذہبی گروہوں  کی کامیابی اوراُن کی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت اس امر کی گواہ ہیں ۔ یہ امر اب روز روشن کی طرح عیاں  ہے کہ مذہبی انتہا پسند جو کہ افغان جہاد کے زمانے سے پاکستان کی حمایت کررہے یں  اُن کے سرپرست پاکستان کی فوج اور خفیہ اداریں  ہیں ۔مذہبی جنونی مثلاً منگل باغ،  فضل اللہ اور صوفی محمد اور مذہبی گروہ مثلاً جماعت اسلامی،  جمیعت علمااسلام تمام یا تو پاکستانی اداروں  کی پیداوار ہیں  اور یا اُن کے حمایتی ہیں ۔  پاکستان میں  موجود قومیتیں  بلوچ،  پشتون،  سندھی،  سرائیکی اور مہاجر پاکستان کے مفاد سے کوئی سرو کار نہیں  رکھتیں کیونکہ یہ واضح ہے کہ پاکستان کا مفاددراصل پنجاب کا مفاد ہے۔ پاکستان کی میڈیا کا یہ وطیرہ ہے کہ پنجاب اور پاکستان کی مفاد کو ایک جیسا بیان کرکے عوام میں پنجاب کے خلاف کسی تحریک کوخلافِ پاکستان قرار دیا جاتا ہے۔صوبہ پنجاب کوتین اکائیوں  میں  تقسیم کرنا چاھیے تاکہ سرائیکیوں  اور پوٹوہاریوں  کو بھی اُن کے سیاسی اور ثقافتی حقوق اور وسائل مل سکیں ۔ پاکستان کی سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ روز اول سے ہی صوبائی خود مختاری کے سوال کو پس پشت ڈالنے کی تگ و دو کرتی رہی ہے۔یہی وقت ہے کہ پاکستان کی مظلوم قومیتیں  اٹھ کھڑی ہوں  اور وفاق سے اپنے حقوق مانگیں  اور پنجاب کے تمام استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کریں ۔اگر پاکستان نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو وہ دن دور نہیں  جب پاکستان صرف پنجاب بن کر رہ جائے گا۔
 
1947 میں  ہندوستان کی تقسیم کے بعد NWFPمیں ایک ناجائز ریفرنڈم کے ذریعے NWFP کو مغربی پاکستان میں  شامل کیا گیا۔خدامی خدمتگار تحریک نے اِس اسطصوابِ رائے کا بائیکاٹ کیا کیونکہ اِس میں  افغانستان کے ساتھ الحاق کی شرط شامل نہیں  تھی۔اِن ناجائز ہتھکنڈوں  کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کی خاطر اور قومی مفاد کے نعرے کی آڑ میں  پشتونوں  کے وسائل کا استحصال شروع کیا۔یہ نئی ریاست جناح کی نظرئےے پر قائم تھی جس کا خالق جناح نہیں  بلکہ انگریز سامراج تھا۔اِس کےلئے جو حکمتِ عملی اپنائی گئی وہ یہ تھی کہ پشتونوں  کی مذہبی جذبات کو استعمال کیا جائے۔اِس پر مذہبی گروہوں  نے پشتونوں  کو مذہب کے غلط استعمال کے ذریعے اپنے قومی مقاصد کی جدوجہد سے دوررکھااور ریاست کے مفاد کو مذہبی تناظر دے کر پشتونوں  کے افرادی وسائل کا استعمال کیا گیا۔ پشتونوں  نے پاکستانی اقتدار کے ٹولے کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔اِس کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پشتونوں  کی بقاکو خطرے میں  ڈال دیا۔اپنے مقاصد کی خاطر مذہبی انتہا پسندی کو پھیلانے کے بعد پشتونوں  کو دہشت گرد کہاجا تارہا ۔اُن کی ملی تحریکوں  کو بھی طالبانائزیشن کا نام دیاگیا۔پاکستان میں  ہر جگہ پشتونوں  کا قتلِ عام جاری ہے اور اسٹیبلشمنٹ اِس کارنامے پر ڈالروں  کی امداد لے رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں  جب پشتون اِس پر مجبور ہوں  کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنے کے بارے میں  سنجیدگی سے سوچیں  کہ پاکستان نے اُن کو ساٹھ سالوں میں  کیا دیا ہے۔
1.       کیا پاکستان نے برطانوی سامراج کا دیا نام NWFP تبدیل کیا ہے؟
2.       کیا پاکستان میں پشتونوں کا متحدہ صوبہ ہے؟
3.       کیا NWFP  کو AG Qazi فارمولے کے تحت پانی اور بجلی کی مد میں حصہ دیا جاتا ہے؟
4.       کیا فاٹا میں FCR کا قانون ختم کیا گیا ہے؟
5.       کیا فاٹا اور NWFP  میں انفراسٹرکچر اور ترقی کا میعاد وہ ہے جو اِس صوبے کے وسائل کے متناسب ہو؟
6.       کیا NWFP  صوبے کو وفاق سے تمباکو کی مد میں اِس کا حصہ ملتا ہے؟
7.       کیا NWFP  میں گدون امازئی اور جمرود کے علاوہ صنعتی علاقوں کو ترقی دی گئی ہے؟
8.       کیا NWFP  میں تعلیمی ترقی ہوپائی ہے؟
9.       کیا NWFP  کی سیاحت اور معدنیات کی صنعت کو ترقی ملی ہے؟
10.    کیا افغانستان دُشمن اور پشتون دشمن پالیسی ’’سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘کو ترک کیا گیا ہے؟
11.   کیا امریکی امداد میں سے پشتون علاقوں کو 10% بھی مل رہا ہے؟
12.     NWFP کیوں دہشت گردوں کی زیرِ عتاب ہے جبکہ فوج اور سیکیورٹی اداروں کے مراکز لاہور اور راولپنڈی میں ہیں ؟
13.    اگر پاکستان نے امریکی مفادات کی خاطر پشتون علاقوں کو انقلاب ثور کے خلاف استعمال کیا ہے تو کیا یہ جائز مطالبہ نہیں کہ پاکستان اِن پشتون علاقوں کی بحالی اور ترقی کو اولیت دے؟
14.    کیا پشتونوں اور دوسری قوموں کو شفاف انتخاب کا حق دیا گیا ہے؟
 
نا انصافی کی ایک انتہا ہوتی ہے۔امام علیؓ کے فرمان کے مطابق  ’’ریاست کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں ‘‘۔اسی طرح   J.J.Rosseau کے مطابق عوام اور ریاست کی بیچ ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست عوام کوحقوق اور وسائل فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی ریاست میں  عوام بنیادی بشری حقوق سے محروم ھیں ۔اِس ریاست کے مستقبل کے بارے میں  اُٹھنے والے سوالات بالکل جائز ہیں  ۔جتنی جلدی مشرف حکومت اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں  کے حوالے کردے اتنا پاکستان کے حق میں  بہتر ہے۔پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان ایک جمہوری وفاق کے طور پر کام کرے جس میں  صوبوں  اور قوموں  کے حقوق کا تحفظ ہو۔اگر اِن اقدامات میں  مزید تاخیر ہوئی تو پاکستان کا وجود خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔  
 
 
پاکستان کے قائم ہونے کے بعد فوراً بعد ہی اس کی تمام ادارے فوج اور سول بیوروکریسی کے تحت چلے گئے۔اِن اسٹیبلشمنٹ کے پالیسیوں  کا نتیجہ تھا کہ پاکستان میں  حقیقی سیاستی قیادت نہیں  ابھری جو کہ عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک کرسکے اور ریاست میں  عوام کا حقیقی عمل شروع کرسکے۔ پشتون،  بلوچ،  سندھی سیاسی جدوجہد وں  نے امرانہ فوجی حکومتوں  اور اُن کی ماتحت سول حکومتوں  کے خلاف اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کی۔مگر اِن کی اِس جدوجہد کو سختی سے کچلا گیا اور اِن کو غداری اور دوسرے ایسے الزامات کے تحت پابندِ سلاسل کیا گیا۔ دوسری جانب ایک بڑی آباد اور تیسری دُنیا کے ملک ہونے کے باوجود بھارت خود کو ایک علاقائی اور عالمی طاقت بنانے لگا ہے اور عالمی سیاست نام میں  ایک مقام رکھتا ہے۔مشرقِ وسط میں  UAE اور یورپ میں  فنلینڈ بھی اچھی مثالیں  ہیں ۔بھارت اب اپنے مضبوط اِداروں  کے باعث سیکیورٹی کونسل کی سیٹ کا خواہاں  ہے۔بھارت کی اِس کامیاب کہانی کی وجہ سے صرف اور صرف اِس کے مضبوط اِدارے ہیں ۔پاکستان کی سیاسی،  سماجی اور اقتصادی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ نکات واضح ہوتے ہیں ۔ انگریز سامراج کے دور میں مسلم لیگ ایک اسلامی ریاست کا نعرہ بلند کرتی تھی جیسے کہ قرارداد لاہور میں واضح ہے۔ان کا مقصد اسلام کے نام پر ایک نظریاتی ریاست کا قیام تھا۔یہ نظریہ بنگلہ دیش کے قیام سے غلط ثابت ہوگیا۔تقسیم کے بعد قراردادِ مقاصد کو آئین کا سرچشمہ قرار دیا گیا مگر اس کی مکمل تنفیذ نہ ہوسکی۔ایوب خان دور میں صنعت کاری کو ترویج دی گئی مگر اداروں کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ ناکامی کا شکار ہوگئی۔بھٹو نے ایک جمہوری اور سوشلسٹ وژن کو ترویج دی مگر فوج اور امریکا نے اُن کو وقت نہیں دیا۔اس نے ملک کو ایک آئین دیا جو اگر چہ قومیتوں کی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا تھا مگر متفقہ ضرور تھا۔جنرل ضیاالحق نے تمام قوم کو اسلام کے نام پر فریب دیا اور اس کو لوگوں کے مسائل کے حل کا ذریعہ بنانے کی بجائے علاقے میں امریکی سامراج کو فروغ دینے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے استعمال کیا۔لاکھوں پشتونوں اور افغان باشندوں کو پاکستان اور امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔تمام قوم کو جہادی فلسفہ اور فرقہ وارانہ جنونیت میں مبتلا کیاگیا۔تمام دہشت گردتنظیمیں بشمول MQM کو ضیاحکومت نے جنم دیا۔بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں میں سول حکمرانی کی طرف قدم اٹھانے کی کوشش کی گئی مگر فوجی شب خونوں اور کرپشن نے اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مشرف دور کی پہلی غلطی یہ تھی جب اس نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں  شمولیت اختیار کی جو جنگ اِ س لئے تھی کہ اُن تمام ریاستوں  اور قوتوں  کو کنٹرول کیا جائے جو علاقے میں  امریکی مفادات کے خلاف تھے۔ دوسری غلطی وہ تھی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  امریکی آشیر باد حاصل کرنے کے بعد اِس امداد کو دہشت گردی اور القائدہ کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔تیسری غلطی یہ تھی کہ امریکی امداد کو افغانستان میں  کرزئی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔اِس کےلئے خفیہ اداروںنے طالبان کو سپورٹ کیا اور اب حالات یہ ہیں  کہ یہی لوگ پاکستان کی ریاست کے خلاف ہیں ۔یہی غلطی    نا ٹو اور ISAF نے افغانستان میں  کی۔بجائے افغان فوج اور سیکیورٹی اداروں  کو مضبوط بنانےاور اُن کوسیکیورٹی کی ذمہ داریاں  سونپنے کے بجاے NATO, نے طالبان کے خلاف جنوب میں  ایک طویل جنگ شروع کردی جس کے باعث وہ عوام میں  مقبولیت اور غیر ملکی قوتیں کی افغان حکومت کےلیے امداد کھو بیٹھی۔اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان خفیہ اداروں کی مدد سے مضبوط ہورہے ہیں  اور ان کو امداد القائدہ کے عالمی دہشت گردفراہم کررہے ہیں کیونکہ دہشت گرد ی ایک عرب قوت ہے اور پشتونوں  یا پاکستانیوں  نے اسے کبھی بھی سپورٹ نھیں کیا۔ پاکستان کی غلط پالیسیوں  کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کی خود مختاری کو چیلنج کرتے ہوئے قبائلی پشتونوں  پر حملے شروع کردیے ہیں ۔یاد رہے کہ یہ قبائلی پشتون پاکستان کے لئے ایک بے تنخواہ فوج کی حیثیت رکھتے تھے جنہوں  نے کشمیر اور دوسرے علاقوں  کو آزاد کرایا لیکن اُن کی زندگی اور فوج کے افسران کی زندگی میں  بہت فرق ہے۔ پشتون ،  جو کہ تاریخی افغانستان میں  عرصے سے راج کرتے رہے ہیں ۔آج ایک ایسی ریاست میں  ہیں  جو ان کے استحصال پر مبنی ہے۔یہ ریاست اُن کے علاقے کو نام دینے کی بجائے اُن کے تمام وسائل پر قابض ہے۔فاٹا کے پشتون بالکل بے گناہ ہیں  اور وہ یہ نہیں  جانتے کہ القائدہ کیا ہے جس کا مرکز کراچی،  لاہور اور راولپنڈی جیسے شہر رہے ہیں ۔ پشتون قبائلی علاقوں  کو مزید دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بچانے کےلئے یہ اقدامات ضروری ہیں ۔ قبائلی علاقوں میں سیاسی پارٹیوں کو اجازت دی جائے تاکہ نوجوانوں میں سیاسی شعور اجاگر ہوجائے اور وہ انتہا پسندوں کے آلہ کار نہ بنیں۔ موجودہ مدرسوں میں جدید علوم بھی پڑھائیں جائیں۔ قبائلی علاقوں میں صنعتوں کا قیام ناگزیر ہے۔صنعت کاری علاقے کے کلچر، رہن سہن اور طور اطوار میں ایک مثبت تبدیلی لاتی ہے۔ قبائلی علاقہ جات کو صنعت کاری اور سیاحت کا مرکز بنانے کےلئے اقدامات کئے جائیں ۔بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف راغب کرتا ہے۔ صنعت کاری کو مضبوط کرنے کےلئے تعلیم اور خصوصی طور پر Technical تعلیم کو ترویج دی جائے- FATA میں سیاسی اصلاحات شروع کی جائیں ۔ FCR کو ختم کیا جائے اور FATA کے دوسرے علاقوں کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی روابط کو مضبوط بنایا جاے۔  
 
پاکستان میں  فوجی  آمریت اور پشتون
 پاکستان ایک غیر عوامی جدوجہد کے نتیجے میں  مغرضِ وجود میں  آیا۔اس وقت سے لے کر آج تک یہ مختلف استعماری قوتوں  کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے جو اپنے مذموم مقاصد کے تخفظ کے لئے اپنی مرضی کے عامرانہ حکومتیں  قائم کرتے ہیں ۔ان میں  سے آخری عامرانہ دور ہندوستان سے ہجرت کرنے والے جنرل پرویز مشرف کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف ملٹری کو coup d’état   کے نتیجے میں  برسرِاقتدار آئے۔ہمیشہ کی طرح پاکستان آرمی نے اس مرتبہ بھی ڈکٹیٹر شپ کا ساتھ دیا۔اس نے اکتوبر1999سے پاکستان کے خفیہ اداروں  کی مدد سے سیاست کا گھنائونا کھیل شروع کر رکھا ہے۔   9/11کے بعد اسے امریکہ کے طرف سے یہ موقع دیا گیاکہ وہ ان کے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو اپنائے۔اسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ افغانستان کو کنٹرول کریں اور قبائلی علاقوں میں پشتونوں کا قتل عام کریں ۔پشتونوں پر یہ جھوٹا الزام لگایا گیا کہ وہ باہر سے آنے والے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ انہی دہشت گردوں کو افغان جنگ کے دوران پاکستان کے خفیہ ادارے لائے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ مشرف نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جس کی مدد سے وہ نہ صرف امریکہ کو اپنے حمایت کے لئے آمادہ کرنے کے کئے بلیک میل کرتا رہا بلکہ اپنے عامرانہ دور حکومت کو جواز فراہم کرنے کے لئے اس نے فوج اور خفیہ اداروں  کو بھی استعمال کیا۔اس کی حکمت عملی کا تجزیہ کچھ یوں  ہے۔ خفیہ اداروں  کی طرف سے طالبان کے ذریعے افغان فوج اور ISAF کو نشانہ بناتے ھیں جس کے نتیجے میں  نیٹوNATO افواج بمباری کرتے اور معصوم افغان اور پشتون اس بمباری کا شکاری ہوتے ھیں۔افغان فوجوں  اور ایساف پر حملوں  کی وجہ سے افغان حکومت اور نیٹو افواج پر دباو بڑھتا ھے اور بیرونی دنیا میں  یہ تصور عام ہوتا ھے کہ طالبان کو پاک افغان سرحد پر قبائلی علاقوں  سے پشت پناہی ملتی ہے جس کی وجہ سے متنازعہ سرحدڈیورنڈ لاین کے اطراف پشتونوں  کے درمیان بداعتمادی کی فضا بھی پیدا ہوتی ھے۔پاکستان کے خفیہ ادارے یہ پروپیگنڈا کیاکرتے ھیں کہ قبائلی علاقوں  کے لوگ طالبان کی مدد کررہے ہیں  اور چونکہ قبائلی علاقوں  میں  طالبانائزیشن بڑھ رہی ہے اس لئے فوجی آ پریشن ضروری ہے۔معصوم پشتونوں  کا بڑی بے دردی سے قتل عام کیا اتا ھے۔میڈیا کو پشتونوں  کے اس قتل عام کی کوریج سے منع کیاجاتا ھےاسی پروپیگنڈا کو بنیاد بنا کر پاکستان آرمی پشتونوں  کے قتل عام کو جواز فراہم کرتی ھے۔سرحد کی دوسری طرفISAF کو نشانہ بنانے کے بدلے میں  افغان اور نیٹو افواج جنوبی افغانستان میں  اپنی کاروایاں  تیزکرتی ھیں جن کے نتیجے میں  بے گناہ پشتون مارے جاتے ھیں۔  2007میں NWFP کے بیشتر شہروں  اور کرم ایجنسی میں  بم دھماکے کرائے گئے تاکہ لوگ ان کو فرقہ واریت سے تشبیہ دیں  اور یہ تاثر عام ہو کہ طالبانائزیشن قبائلی علاقوں  سے شہروں  میں  منتقل ہورہی ہے۔اس نے مشرف حکومت کو سیاسی فائدہ بھی پہنچایا اور پاکستان امریکہ کی ہمدردی جیتنے میں  کامیاب ہوا اورپشتونوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی میں  پاکستان کو امریکی امداد ملی۔   مشرف کی طرف سے دوسرا قدم جس نے پشتونوں  کو بھی متاثر کیا وہ ملک میں  عدلیہ کا تقدس پامال کرنا تھا۔ایک ایسے جج کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا جس نے فوجی حکومت کے ہوتے ہوئے عدلیہ کے تقدس کو بحال رکھنے کی کوشش کی اورقومی اثاثوں  جیسے پاکستان سٹیل کی نجکاری کو چیلنج کیا- مزید برآں ان لوگوں  کی اغوا کی چھان بین شروع کی جنہوں  نے خفیہ اداروں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔مشرف کی اس پالیسی کو وجہ سے مندرجہ ذیل اہم مسائل سرد خانے میں  چلے گئے-NWFP کے پن بجلی کے خالص منافع کا کیس، جس کی وجہ پشتونوں  میں  اضطراب بڑھ رہا ہے۔صوبائی خودمختاری کا معاملہ اور پاک افغان جرگہ کی اہمیت جس کی وجہ سے سرحد پار سے پاکستانی خفیہ اداروں  کی مداخلت اورمتنازعہ سرحد کے دونوں  اطراف پشتونوں  کے قتل عام کے مسائل حل ہو سکتے تھے۔ مشرف حکومت کا تیسرا کام جس نے پشتونوں  کو بری طرح متاثر کیاوہ خفیہ اداروں  کے طرف سے طالبان کے ہاتھوں  پشاور اور مردان میں  بم دھماکے تھے ۔ان دھماکوں کامقصد NWFP  کو ایسے علاقے کے طور پر پیش کرنا تھا جہاں  امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ تین ارب ڈالر کی امریکی امداد NWFP میں طالبان کی طرف سے دہشت گردی کے ممکنہ اڈوں  کو ختم کرنے پر خرچ ہورہی ہے۔ فوجی حکومتوں  کو دوام بخشنے کے لئے فوجی حکومت کی طرف سے ایسے مزید اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے۔عدلیہ ، مقننہ اور میڈیا پر پاپندیاں  لگا کر کر مشرف حکومت نے پہلے ہی اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی کوششیں  کیں  تھیں ۔مستقبل قریب میں  ان لوگوں  کی طرف سے بھر پور ردعمل سامنے آئے گاجو پاکستان میں  فوج کی طرف حکومت پر ناجائزقبضہ کرنے کی جعلی تکنیک سے واقف ہیں ۔ فوجی آمریت کا مقصد سوائے اپنے آپ کو دوام بخشنے کے اور کوئی نہیں ۔اگر ایران پر حملہ نہیں  ہوتا تو پلان بی کے طور پر پاکستان میں  ایک مرتبہ پھر فوجی آمریت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔   پشتونوں اور پاکستان کی باقی محکوم اقوام  کو اپنا دشمن پہچاننے میں  غلطی نہیں  کرنی چاہئے۔یقینا مذہبی حکومت کے دعویدار ملا ، سول اور ملٹری بیوروکریسی مظلوم عوام کے اصل دشمن ہیں  جنہوں نے عوام  کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں  اور جو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے بالخصوص پشتونوں  کا خون بہا رہے  ھیں -
 
 
پشتونوں  کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگی طور پر افغان وطن کو کبھی مسخر نہیں  کیا گیا۔پشتونوں  نے ہر سامراجی قوت کے خلاف جدوجہد کی -سامراجی قوتوں  نے ہمیشہ پشتونوں  کو تقسیم کیا۔ سامراجی قوتوں  نے پشتونوں  کو کمزور کرنے کی خاطر اُنہیں چھوٹی چھوٹی  وحدتوں  میں  بانٹا اور ان میں فرقہ واریت اور کرپشن کا بیچ بویا۔انھی قوتوں  نے پشتونوں کی مذہبی اور سیاسی قوت کو اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کیا اور پشتونوں  کو مختلف یونٹوں  میں  تقسم کرکے  انھیں اپنے تاریخی وطن افغانستان سے دور کیا۔جسکی وجہ سےافغانستان عالمی اور خطہ کی سازشوں  کا شکار ھو کر کمزور ہوا- دوسری طرف پاکستان کے پشتون ریاست کے دبائو کے تحت اپنی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوے۔  پشتو ن ملت کے پرانے دشمن،  پاکستان میں  اِن کے وسائل سے کھیل رہے ہیں ۔برطانوی سامراج کے یہ کلرک برطانوی سامراج کی مہربانی سے تخت نشین ہوے تھے اوربعد میں انھوں نے تمام قومیتوں  کا استحصال شروع کیا۔وقت کے ساتھ ساتھ پشتونوں  کی آنکھیں  کھل گئیں  مگر تب تک پشتون وطن بالفعل پنجابی استمار کے ہاتھوں  میں  جاچکا تھا اور وہ اپنی تاریخ اورقومی ہیروزدونوں سے بالکل نا بلد ھوچکے تھے۔ اب جیسے جیسے پاکستان اپنے منطقی انجام کی طرف جارہا ہے۔پشتونوں  کو پاکستان اور اِس خطے سے نابود کرنےکی حکمت عملی پر عمل کیا جا رھا ھے ۔اِس کام کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے مفاد کےلئے مذہب کا استعمال کیا جا رھا ھے یہاں  تاکہ عالمی برادری میں  پشتونوں  کو دہشت گرد کے طور پر متعارف کرایا جاے۔ افغان جنگ میں  جنرل چودھری ضیا الحق نے پشتونوں  کو پاکستان کے مقاصد کی خاطر قربان کیا۔پھر 1990 کی دھائی میں  طالبان کے نام سے پشتونوں  کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔نجیب اللہ اور احمد شاہ مسعود کو ختم کیا گیااورافغانستان کو پاکستان کے پانچویں صوبے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ جبکہ کراچی میں  MQM کے ذریعے اور فاٹا میں فوج کے زریعے  پشتونوں  کو قتل کیا گیا۔اِس ڈرامہ کا سب سے بڑا مقام سوات کی صورحال تھی جب فضل اللہ اپنےریڈیو سٹیشن سے لوگوں  کو دعوت جھاد دیتا تھا۔ فوج اور دہشت گرد جو سوات میں ایک دوسرے کے اہم ساتھی سمجھے جاتے تھے  ڈیورنڈ لائن کے دونوں  جانب پشتونوں  کے جانوں  سے کھیل رہے تھے ۔فوج اُن پشتونوں کو دہشت گرد کہہ کر قتل کررہی ہے اور اس پر امریکاسے انعام اور فوجی امداد لے رہی ہے اور پھر انہیں  کو  NATOاور ISAF کے خلاف ٹرین کررہی ہے اور کشمیر اور دوسرے علاقوں  میں  دہشت گردی کےلیے بھیجتی ھے ۔  پشتونوں  کی سیاسی قیادت کو یہ واضح کرنا چاھیے کہ طالبانائزیشن پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک چال ہے جسکی بدولت پشتونوں کو مذہب کے نام پر استعمال کر کے ان میں جزبہ حریت کچلنا ھے - پشتون قیادت کو یہ بھی واضح کرنا چاھیے کہ پاکستان کی غیر انسانی اور منافقانہ پالیسی کے تحت پشتونوں  کو دہشت گرد دکھایا جا رھا ھے اور پھر انہیں  طالبان بناکر ھمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کیا جا رھا ھے اسی  لیے پاکستان کے پشتون علاقوں میں طالبان  کو خفیہ اداروں  کا دہشت گرد  مذھبی ونگ بھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے اقتدار کا ٹولہ اقتدار کو تو چھوڑنے کےلئے تیار نہیں لیکن پشتون قوم سے جینے کا حق بھی چھین لینا چاہتا ھے  مگربعید نھیں کہ مستقبل قریب میں  پشتون قوم اپنی  آزادی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ھو جاے ۔
 
پشتونوں  کا استحصال اور پاکستان کا مستقبل
 
پشتونوں  کی وحدت میں  سب سے بڑی رکاوٹ استعماری قوتوں  کے وہ ہتھکنڈے ہیں  جن کی وجہ سے پشتون جغرافیائی، مذہبی اور سیاسی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں اور اس طرح ان کو کمزور رکھ کر طاقت کے ایوانوں  میں  ان کے آواز کو دبایا گیا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کی خاطر پشتونوں  کو کمزور سے کمزور تر رہا ہے۔لہٰذایہ ضروری ہے کہ پاکستان کی سوِل اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ان ہتھکنڈوں  کو بے نقاب کیا جائے جن کے ذریعے وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں ۔اس ضمن میں  سب سے اوچھا ہتھکنڈا مذہب، مذہبی شخصیات اور مذہبی پارٹیوں  کا استعمال ہے جن کے ذریعے پشتونوں  کو اتنا کمزور کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنی خود مختار حکومت بنانے کے لائق نہیں  رہے ہیں ۔ وہ اقوام جو پشتونوں  کو اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں  ،اصل میں  استعماری قوتوں  کے جھنڈے تلے پشتونوں  کے خلاف جنگ میں  مصروف ہیں ۔تاریخ میں  اگر پیچھے چلے جائیں  تو پشتون علاقوں  کے علاوہ پورا عالم اسلام استعماری طاقتوں  کے زیرِتسلط رہا ہے حتٰی کہ مسلمانوں  کے مقدس شہر مکہ اور مدینہ بھی۔اسلام کسی دوسرے قوم کے لئے محض مذہبی عقیدے کا نام ہوگا لیکن پشتونوں  کے لئے ان کے ثقافت کا جزِ لاینفک ہے۔اسلام پشتون ثقافت میں  اس حد تک رچ بس چکا ہے کہ دونوں  کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ناممکن ہے۔ پشتونولی ،پشتونوں  کا ضابطہ حیات ہے۔پشتونوں  نے اس لئے اسلام قبول کیا تھا کہ پشتونولی اور اسلامی اصولوں  اور اخلاقیات میں  کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔لیکن باوجود اس کے کہ پشتون اسلام کے ساتھ والہانہ لگاو رکھتے ہیں  ،پشتونوں  کی اسلام دوستی کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے اور ان کی سیاسی آزادی اور وسائل اسلام کے نام پر سلب کئے گئے ہیں ۔ نام و نہا د تحریک شہدین کے پیش رو سید احمد بریلوی سینکڑوں  میل کی مسافت طے کرکے پشتونوں  کے سرزمین آئے تاکہ اپنی مرضی کی اسلامی ریاست قائم کرسکے۔پشتونوں  نے اس کو پشاور کا امیرالمومنین بھی بنا یا لیکن اس کے مخصوص طرز ِ اسلام کی یہ تحریک زیادہ دیر نہیں  چلی کیونکہ اس نے سیاسی طاقت کا ناجائز فایدہ اٹھا کر پشتونوں  کے روایتی سماجی ڈھانچے میں مداخلت کی تھی۔تبلیغی جماعت بظاہر ایک غیر سیاسی تحریک ہے جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں  ہے اور پورے پاکستان میں  کام کر رھی ہے، اس تحریک کو بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا اور ایک سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی اس کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔یہ تحریک ایسے سٹیریوٹائپس stereotypes   پیدا کررہی ہے جو کہ بلاواسطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی مدد کر رہے ھیں اور ایسے افکار اور نظریات کی ترویج کر رہے ھیں جس کے نتیجے میں  معاشرے میں  سیاسی خلا پیدا ہور ہا ہے اور سیاسی اور معاشی طور پر محروم پشتون سہل پسند ی کی طرف راغب ہو رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی نے کبھی بھی پاکستان میں اقتدار حاصل نہیں  کیا لیکن اسکی لیڈرشپ زیادہ تر پشتون علاقوں میں سے ہے اور اس کا ووٹ بینک بھی مسلسل پشتون علاقوں  میں  بڑھ رہا ہے۔اس جماعت کی لیڈرشپ اپنے بچوں  کو تو مغربی ممالک میں  جدید کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں  لیکن پشتونوں  کے بچوں  کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی خاطر کشمیر میں  نام و نہاد جہاد کی بھٹی میں  جھونک رہے ہیں ۔ جمعیت علما اسلام کے دونوں  دھڑوں  نے ایم ایم اے کے جھنڈے تلے شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں  حکومت کی اور پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو سہارا دیا۔انہوں  نے کبھی بھی پشتونوں  کے مفادات کے لئے کام نہیں  کیا۔  ثابت ھوا کہ پشتونوں  نے ہر اس گروہ کی حمایت کی ہے جس نے اسلام کے نام پر پشتونوں  سے مدد مانگی لیکن بدلے میں  پشتونوں  کو سوائے ذلت اور رسوائی کے کچھ نہیں ملا بلکہ پشتونوں  کے استحصال میں  مزید اضافہ ہوا ہے۔ جب بھی پشتونوں  کو استعماری قوتوں  کے مذموم مقاصد کا پتہ چلا ہے  انہوں  نے مزاحمت کی راہ اپنائی ہے۔پاکستان کے مظلوم قوموں  بالخصوص پشتونوں کے ساتھ ناانصافی اور انکے استحصال کی وجہ سے ٠٤ اور ٠٧کی دہائیوں  کی یا د تازہ ہوتی ہے۔تاریخ نے ہندوستان کو تقسیم کیا اور پاکستان کو جنم دیا۔پھر پنجابیوں  نے جب بنگالیوں  پر مظالم کی انتہا کردی تو پاکستان تقسیم ہوا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں  لا یا گیا۔یوں  لگ رہا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ابن الوقتی اور استحصالی کردار کی وجہ سے ایک دفعہ پھرپاکستان ٹکڑوں  میں  بٹ جائے گا۔ اور اس مرتبہ تاریخ کے اس فیصلے سے لڑنا مشکل ہوگا کیوں  کہ اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے مظلوم قوموں اور پشتونوں  کے ساتھ لڑنا گا۔ پاکستان کے حکمران طبقے کو یہ زیب نہیں  دیتا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کو قومی مفاد کا نام دے کر پشتونوں  اور دوسرے مظلوم قوموں  سے جینے کا حق چھینے اور اسی طرح ان کو اپنی سرزمین پر حکومت کے حق سے محروم رکھے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی اور سماجی ناانصافیا ں مظلوم قوموں  اور نسلی گروہوں  کے دلوں  میں  نفرت اور دشمن کے بیج بورہی ھیں اور مذہب، مذہبی افراد اور پارٹیوں  کا سہارا لے کر مظلوم قوموں  کو بنیادی انسانی حقو ق سے محروم کررہی ھیں۔ پشتونوں  کو ان تمام استحصالی طبقوں  کی نشان دہی کرانی چاہئے اور ان کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے۔ان طبقوں  میں  پاکستان آرمی، جاسوسی ادارے، سول بیوروکریسی،اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت سیاسی پارٹیاں ،مذہبی طرزِ حکومت کے دعویدار اور متعصب ذرایع ابلاغ شامل ہیں  جن کے نام و نہاد دانشور ظلم اور بربریت کو مسلسل جواز فراہم کررہے ہیں ۔یہ تمام استحصالی طبقے پشتونوں  کے اصل دشمن ہیں  اور پشتونوں  کو متحد ہو کر ان کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے۔ پشتون تب تک پر امن نہیں  رہ سکتے جب تک وہ اپنے اصولوں  کی خاطرنہیں  لڑتے۔کسی بھی حکمران طبقے کے لئے یہ مناسب نہیں  کہ وہ  اپنے مذموم مقاصد کو قومی مفاد کا نام کے کر پشتونوں  اور دوسرے مظلوم قوموں  کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اور اپنے سرزمین پر حکمرانی کے حق سے محروم کریں ۔ یہ بعید نہیں  کہ پشتونوں  کی یہ احساسِ محرومی ان کوایک ایسی جدوجہد شروع کرنے پر مجبور کر دے جس کی بدولت وہ اپنی پرانی جغرافیائی حیثیت کو بحال کر سکیں اور یہ سوچنے پر مجبور ھوجایں کہ وہ افغانستان کا حصہ تھے اور ان کو ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان کے ساتھ شامل کیاگیا کیونکہ تقسیم ہند سے پہلے اس جعلی ریفرنڈم کا پشتونوں  کے واحد نمائندہ جماعت خدائی خدمتگاروں  نے بائیکاٹ کیا تھا۔ پاکستان کے اندر موجود سیاسی اور معاشی نا انصافیاں  ایسی وجوہات ہیں  جن کی وجہ سے مظلوم اقوام اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کرتے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے مقتدر طبقوں مثلا  فوج ،جاسوسی ادارے،سول بیوروکریسی،اسٹیبلشمنٹ نواز سیاسی پارٹیاں ومذہبی طبقے،متعصب ذرائع ابلاغ اور نام ونہاد دانشوروں نے ہمیشہ مذہب، مذہبی پارٹیوں  اور مذہبی لوگوں  کو استعمال کیا ہے تاکہ مظلوم اقوام کی ترقی کا راستہ روکا جا سکے اور ان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا سکے۔ پشتونوں  کو ان طبقوں  کی نشاندہی کر کے ان کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے کیو نکہ یہی طبقے پشتونوں  کے اصل دشمن ہیں ۔ 
 
مشرف دور کا تنقیدی جائزہ
 
پاکستان میں  تمام ریاستی اِدارے سماجی،  اقتصادی اور سیاسی کرپشن کا شکار ہیں ۔ریاستی اداروں  کی زبوں  حالی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِن اداروں  میں  جمہوریت کا فقدان ہے کیونکہ جمہوریت قومی حقوق کی پاسدارہوتی ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی جمہوریت کو پنپنے نہیں  دیا تاکہ وہ اقتدار پر اپنا تسلط برقرار رکھیں ۔میڈیا میں  انقلاب اور عدلیہ کی بحالی کے بعد اب فوجی شبِ خون ملک بھر میں  دم توڑ چکا ہے اور اب صرف پنجاب، مہاجر اور سندھ کے وڈیرے فوجی شپ خون کے حامی ہیں ۔فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اقتصادی طاقت کو ڈاکٹرعائشہ صدیقہ اپنی کتاب ملٹری انکارپوریٹ میں  آشکارہ کرچکی ہیں ۔ مشرف حکومت کے خلاف درج ذیل چارج شیٹ ہے۔ فوجی حکومت نے تمام قومی خود مختاری کے تقاضوں  کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں  الحاق کیا حالانکہ سب جانتے ہیں  کہ یہ جنگ تیل کےلئے ہے۔مشرف حکومت نے صرف امریکی خوشنودی کے حصول کی خاطرڈیورنڈ لائن کی دونوں  جانب معصوم پشتونوں  کا قتلِ عام کیاگیا۔اس حکومت نے عدلیہ کے مقام اور احترام کو پامال کیا ۔اِس حکومت نے MQM کو سپورٹ کیا جس نے کراچی میں  سیاسی جماعتوں  بالخصوص ANP  کے کارکنوں  کابے دریغ قتل عام کیا۔فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تمام اداروں  کو تباہ کیا اور مڈل کلاس کےلئے جینا دو بھرکیا گیا۔تمام فوجی حکومتوں  نے عوام کو خوفناک تحائف دئے ہیں ۔ضیامارشل لامیں  ZAB کو قتل کیا گیا۔امریکی جنگ میں  ملک کو جھونک دیا گیا۔ اسلام کے چہرے کو مسخ کردیا گیا اور فرقہ وارانہ مذہبی اور بدمعاش جماعتوں  اور گروہوں  کو PPP کے خلاف اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیاگیا۔ مشرف حکومت نے نئے ناموں  سے انہیں  پالیسیوں  کو دوام دیا۔نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹااور امریکی جنگ میں  حصہ لیا۔’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘  کے نعرے سے عوام کو دغا دیا۔روشن خیالی اوراعتدال پسندی کے نعرے سے معاشرے کو دو دھڑوں میں  تقسیم کیا۔افغانستان میں  طالبان کے ذریعے Strategic Depthکی پالیسی کو طول دیا۔مسلم لیگ (ق)بنائی اور مذہبی جماعتوں  کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دیا۔  پاکستان کی سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہندوستان کے ساتھ ہر معاملے میں  برابری چاہتی ہے۔مگر جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے میں  برابری کا نہیں سوچا جاتا۔ہندوستان میں  آرمی چیف اقتدار پر شبِ خون مارنے کا سوچ بھی نہیں  سکتا جبکہ پاکستان کا آرمی چیف ملک کاباوردی بادشاہ ہوتا ہے۔وقت آچکا ہے کہ فوج اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں  کے حوالے کردے اور ملک کے سیاسی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرے۔  
 

          غریب اور پسماندہ عوام کا یہ وطن سامراجی قوتوں  کے عتاب کا شکار ہے۔
امریکا پاکستانی فوج کو استعمال کرکے نام نہاد اسلام کے قلعے کو کنٹرول کررہی  ہے- اسلام کے قلعے کا نظریہ عوام میں  فوج کے اقتدارکا جواز تلاش کرنے کےلئے بنایا   گیا -  جب امریکا تیسری دُنیا کے کسی خطے میں  مفاد رکھتا ہے وہ اس علاقے میں  فساد کےلئے راہ ہموار کرتا ہے جس طرح ایران کے خلاف صدام حسین اور بعث پارٹی اور افغانستان میں  PDPA کے خلاف ضیاحکومت کو مضبوط کیاگیا۔ امریکا تیسری دُنیا کے ممالک میں  استحکام نہیں  چاہتا کیونکہ استحکام سے امن آتا  ہے اور امن سے ترقی اور ترقی سے صنعت کاری بڑھتی ہے۔صنعت کاری سے جمہوریت پنپتی ہے اور جمہوریت سے قومی قیادت آتی ہے۔قومی قیادت قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔قومی مفادات ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور اُن کی پشت پناہ سامراجی قوتوں  کے خلاف ہوتے ہیں ۔اِس لئے تیسری دُنیا عدم استحکام سے دوچار ہے۔تیسری دُنیا کے ممالک اِن کارپوریشن کےلئے بڑی مارکیٹ اور منڈی ہیں ۔ملٹی نیشنل کارپوریشنز تیسری دُنیا میں  سرمایہ کاری کے ذریعے مقامی صنعت کوتباہ کردیتی ہیں ۔ دوسری جانب ملی قیادت مقامی صنعت کاری انسانی وسائل کا استعمال اور صنعتی تربیت کے ذریعے استحکام لاتی ہے۔پاکستان میں  اسٹیبلشمنٹ کے مفادات نے قومی اور ملی قیادت کے فروغ کو روکا ہے۔ سامراجی قوتیں  اپنے ملکی مفادات کو مختلف طور سے مضبوط کرتی ہیں ۔امریکا نے صدام کو ایک ہیرو کے طور پر ایران کے خلاف استعمال کیا۔جب صدام نے کویت پر حملہ کیا تو امریکا نے اپنی زرخرید کالونی سعودی عرب کو خطرے میں  دےکھ کر صدام سے تعلق توڑ دیا۔صدام نے بیرونی امداد اور عراق تیل کے استعمال سے اپنا ایک مقام بنالیا مگر امریکا نے اس کو اپنی حقیقی اوقات سے روشناس کردیا۔ دوسری مثال جنرل ضیاکی ہے۔امریکا نے اُس کو بھٹو کے خلاف استعمال کیا جو کہ جمہوریت کی طرف قدم لے رہا تھا۔افغانستان کی جنگ نے امریکا کی ضرورت کو طول دیا اور اسی خاطرضیاالحق اُس کے اقتدار کو طول ملتا گیا۔ اصل مقصد افغانستان میں  ثور انقلاب اور ایران میں  شیعہ انقلاب کا راستہ روکنا تھا۔ جنرل ضیانے افغان قوت کو استعمال کیا۔ ثور انقلابی حکومت کے خلاف پاکستان میں  فرقہ واریت کو ہوا دی۔MQM  کو PPP اور ANP کے خلاف ایک مخالف کے طور پراُبھارا گیا۔ امریکا کو افغان جہاد کا بہترین نتیجہ USSR کے انتشار کے طور پر مل گیا۔امریکی شہر پر حاصل اِن کامیابیوں  نے جنرل ضیا کو پاکستان اور اُمت مسلمہ کےلئے اپنے ناگزیر ہونے کا یقین دلادیا۔وہ اپنے آپ کو ایک حقیقی عوامی قائد سمجھنے  لگا۔ چنانچہ سامراج نے اُس کو خالقِ حقیقی سے ملنے میں  مددکی۔ جنرل ضیا کی آمریت کے بعد پاکستان کو چھوٹے چھوٹے ادوار کی جمہوریحکومتیں دیکھنے کو ملیں  مگر سامراجی قوتوں  نے افغان جنگ کے نتائج،  ایران  ی مضبوطی،  چین کی اقتصادی طاقت اور پاکستان کے جوہری وسائل پر کڑی نظر رکھی کیونکہ سامراجی قوتیں  کبھی بھی تیسری دُنیا کے ممالک میں  استحکام کی حامی نہیں  رہیں ۔ افغان جنگ اور انتہا پسندی کا امریکا کو 9/11 کی صورت میں  حقیقی پھل مل گیا تاہم مشرف حکومت کی صورت میں  امریکہ کوایک اور غلام مل گیا۔مشرف نے اپنی ایک جماعت بنائی۔ پنجاب کو رام کرنے کے لئے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا۔پشتون علاقوں  میں  مذہبی گروہوں  کو حکومت دی گئی اور سندھ میں  MQM کو اقتدار سے نوازا گیا۔اس نظام کے بعد مشرف نے سٹریٹجک ڈیپتھ کو بھارت سے افغانستان منتقل کیا۔چند مذہبی انتہا پسندوں  کی سرکوبی کے بعد فوج کو پشتونوں  کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اسلئے مشرف نے پشتونوں  سے امن معاہدہ کیا۔یہ ایک اچھا قدم تھا مگر امریکا نے اِس کا خیر مقدم نہیں  کہا۔ اِس کے بعد مشرف نے خود کو ایک قومی لیڈر  کے طور پر پیش کیا اورچند مواقع پر امریکی مفاد کے خلاف اقدامات اُٹھائے چنانچہ امریکا نے اِس حکومت کے خلاف اقدامات شروع کردئےے۔ فوجی چیف کو یہ بتایا گیا کہ وہ امریکی مفاد کے خلاف قدم اٹھانے کی صورت میں  صرف ایک کردار کی صورت میں  رہ جائے گا۔اصل اقتدار امریکا کے پاس رہے گا۔ پاکستان کی افواج ایک خیالی دُنیا میں  رہتی ہیں  ۔ وہ کبھی بھی امریکی مفادات کی خاطر سیاسی میدان میں  کود جاتی ہیں لیکن جب تاریخ کی قوت اُنہیں  اُن کی حقیقی حیثیت دکھاتی ہے تو اُنہیں احساس ہوتاہے کہ وہ حقیقی عوام میں  کوئی جگہ نہیں  رکھتے بلکہ چند  سامراجی قوتوں  کی آلہ کار ہیں

   چار میم کے آٹھ سال ۔ مشرف، MQM ، مُسلم لیگ اور مُلا
  
پاکستان میں  فوج ہمیشہ سیاست میں  ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔پہلے موقع پر  فوج چند سیاسی موقعوں  پرموقع پرستوں  کو ملاکر ایک سیاسی جواز بناتی ہے اور پھر چند دانشوروں کو ساتھ ملاکر ایک نئے نظریہ یا Theory کے تحت اقتدار پر براجمان ہوجاتی ہے۔یہی وجہ سے کہ محمود خان اچکزئی کے علاوہ تمام سیاست دان کبھی نہ کبھی فوج کے آلہ کاررہے ہیں ۔پاکستان میں  فوجی افسر،  خفیہ ادارے وڈیروں  اور ملائوں  کے ساتھ مل کر اقتدار پر قابض رہے ہیں ۔ مشرف کے  1999کے شبِ خون کے بعد خفیہ اداروں  نے PML-Q تشکیل دی اور پھرMQMکو کراچی میں  اقتدار میں  ملا کر ایک آمر ک ے ساتھ ہوگئی۔ مذہبی گروہوں  نے آمرانہ حکومت کا بھر پور ساتھ دیا۔سیاسی پارٹیوں  میں  تصادم کو استعمال  کرکےQ لیگ اور MQM کے ذریعے PPP اور دوسری عوامی پارٹیوں کا راستہ روکا گیا۔اور اسی طریقے سے قوم پسند جماعتوں  کو Sideline کیا۔ 
               
  محمود خان اچکزئی ، عمران خان ، اکبر بگٹی ، بے نظیر بھٹو اور حال ہی میں سپریم کورٹ کے دیگر معزول ججوں کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس افتخار جیسے دھرتی کے بیٹوں نے ڈکٹیٹر کےسامنے سر نھیں جھکایا اور نتائج کا سامنا کیا- ایم ایم اے کی طرف سے  نمائندگی کرنے والے  مذہبی علماء نے  لوٹ مار کی دوڑ میں مشرف کے وفادار بروکرز کا کردار ادا کیا اور ڈکٹیٹر کی طرف سے دکھاے گیے مراعات کی کو  ٹھکرا نہ سکے . شاطر فضل الرحمن اور سادہ لوح جماعت اسلامی کی قیادت کی مدد سے مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دیا اور سیاسی پارٹیوں کے اختتلافات کو اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرتے ھوے راتوں رات بنی Q- لیگ اور دشت گرد جماعت  MQMکواپنی حمایت  کی وجہ سے نوازا- اسی طرح مشرف نے فاشسٹ ایم کیو ایم اور بدنیتی پر مبنی ملا کی جے یو آئی کو تبدیل کرکے مین سٹریم پارٹی بنایا اور پیپلز پارٹی کی طرح عوامی حمایت رکھنے والے جماعتوں کو بدنام اور ختم کرنے کی کوشش کی- ساتھ ساتھ آئینی حقوق اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی قوم پرست جماعتوں کوبھی sideline کیا ۔  پاکستان میں فوج کی آمرانہ اور مطلق العنان حکمرانی کے آٹھ سال نے پاکستان کو مہنگائی ، نسلی کشیدگی ، سیاسی انتقام ، سیکورٹی فورسز کے لئے نفرت ، قومی اثاثوں کے استحصال ، لوڈ شیڈنگ ، زندگی کی بنیادی ضروریات کی کمی والے ایک جہنم میں تبدیل کر دیا ہے- ان ایم کی دیگر تحائف یہ ہیں: رجعتی خود کش بمبار، عدلیہ کی توھین، صوبہ سرحد اور فاٹا میں بے گناہ پشتونوں کی نسلی کشی، افغانستان کے لئے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے دہشت گردوں کی برآمد کے ردعمل کے طور پر مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ اور فاٹا میں ان کی حمایت.- بدترین حالات کا تصور کرنا ایک ڈراؤنا خواب ہے . اگر فوج کی حکمرانی جاری رہی اور جوہری ہتھیار مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میںآ گیے تو پورا علاقہ  راکھ کی ایک تصویر پیش کرے گا - چار میموں کی حکمرانی پاکستان اور اسکےغریب عوام  کو تیزی سے تباہی کی کھائی میں گھسیٹے گی کیونکہ فوج سے بطور سیاسی جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ نفرت کی جا رھی ھے-  پاکستان جو کبھی ایک غریب لیکن پر امن ملک تھا اب فوجی حکمرانی کی وجہ سے  پاکستان کے عوام کے لیے نا قابل رھایش ملک بن چکا ھے-  
 
 
 پاکستان کی بنیاد اسلام کی عالمگیریت اور اسلام قوم پرستی کے مبہم نظریہ پر رکھی گئی تھی۔ 1970 کی دہائی میں ابو الکلام پیش گوی کے مطابق پاکستان  تقسیم ہوگیا۔بنگالیوں  نے پنجاب کے استعمار سے نجات حاصل کرلی اور آزاد بنگلہ دیش کا قیام عمل میں  لایا۔بنگال کی پاکستان میں  شمولیت ایک غلطی تھی کیونکہ مختلف کلچر،  مختلف تواریخ اور مختلف مفادات رکھنے والی قوموں  کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی۔ وقت گزر نے کے ساتھ وفاق میں  موجود مختلف گروہوں  کے مفادات واضح ہوتے چلے گئے۔صوبوں  کے مابین کسی قدرتی یکجہتی کے نہ ہونا،  پنجاب کا استحصال،  فوج کا قبضہ اور انصاف سے محرومی کی وجہ سے پاکستان اپنے قدرتی انجام کی طرف رواں  دواں  ہے۔بلوچ،  پشتون،  سندھی حتیٰ کہ مہاجر بھی خود کو پاکستانی تصور نہیں  کرتے کیونکہ وہ کوئی قدرتی یگانگت نہیں  رکھتے کیونکہ مذہبی اخوت کی حقیقت پوری دنیا پر 1971میں  واضح ہوچکی ہے۔ تاریخ سے یہ واضح ہے کہ برصغیر ہندو اکثریت نے بھی کبھی دوسرے مذاہب اور قوموں  کا اتنا استحصال نہیں  کیا جتنا پاکستانی فوج نے تین  دہائیوں  میں  کیا ہے۔ہندوستان میں  اقلیتیں  پاکستان سے زیادہ حقوق اور مذہبی و سیاسی آزادی رکھتی ہیں ۔پاکستان کی بنیاد تاریخ کو مسخ کرکے  پنجاب کے مفاد پررکھی گئی۔ پاکستان نہ سیکولرریاست ہے اور نہ اسلامی۔سیکولر اس لئے نہیں  کہ اس کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی ہے اور عوام اور عالمی برادری اِس مذہبی انتہا پسندی کو قبول نہیں  کرسکتے۔بظاہرپاکستان کے قبام کی کوئی دلیل باقی نہیں  رہتی اورپاکستان اپنی اساس کھو چکاہے۔عوام فوج پر اعتماد کھوچکی ہے۔فوج نے تین دہائیوں  کے اقتدار میں  پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے۔ فوج جو کہ بالفعل ملک کی سب سے مضبوط سیاسی قوت ہے۔ ریاست کی خدمت کے بجائے ریاست کے استحصال پر منحصر ہے۔اسی فوج نے پشتونوں  اور بلوچوں  کے خون سے اپنی ہاتھ رنگے ہیں ۔فوج کے اِس سیاسی رول کی وجہ سے پاکستان اپنے بقاکے خطرے سے دوچار ہیں ۔ پاکستان کی بقا کے خلاف درج ذیل عوامل کار فرما ہیں ۔ پاکستان ایک غیر عملی نظرئےے پر قائم ہوا۔پاکستان کاغذی طور پر تو اسلامی ریاست ہے مگر تمام ریاستی ڈھانچہ پنجاب کے مفاد پر مبنی ہے جو کہ پنجابی مسلمان اور غیر پنجابی مسلمان کے مابین تفریق پر مبنی ہے۔خطے میں عدم استحکام کی وجہ پاکستان ہے۔کشمیر میں پاکستان بغاوت کوہوا دے رہا ہے۔پاکستان کے پاس جوہری وسائل ہیں جبکہ خفیہ اداروں اور فوج میں موجود مذہبی جنونی عناصر کی وجہ سے جوہری وسائل اورپاکستان دونوں خطرے سے دوچار ہیں ۔پاکستان نے خطے میں ایٹمی پھیلائو میں نہایت منفی کردار ادا کیا ہے۔پاکستان ایک آمرانہ ریاست ہے جس میں اقتدار عوام کی بجائے فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس پس منظرمیں  یہ تجویز کی جاتی ہے کہ پاکستان یوگوسلاویہ کی مثال پر عمل کرے اور قومیتوں  کی بیچ مسائل کو اُن کی سطح اور رضامندی کے ذریعے حل کیا جائے۔وگرنہ پاکستان ،  بلوچ اور پشتون علاقوں  کو کھو دیگا۔

No comments:

Post a Comment